دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رضوانہ جیسے بچوں کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے
آمنہ مفتی
آمنہ مفتی
رضوانہ تشدد کیس سامنے آیا تو مجھے بچی کی مظلومیت اور معاشرے کی سفاکی پہ یقین کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح فاطمہ کیس، جس میں بہت کچھ ابھی 'مبینہ' کہا جا رہا ہے، میرے لیے رضوانہ جیسا ایک اور معاملہ ہے۔رضوانہ اور فاطمہ دو نام ہیں۔ یہ علی اور ذیشان بھی ہو سکتے تھے، یہ کلثوم اور زینب بھی ہو سکتی تھیں اور یہ علشبہ اور روزمیری بھی ہو سکتی تھیں۔نام، عمر، زبان، مذہب، علاقہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہمارے بچے غیر محفوظ ہیں۔ رضوانہ کا جرم، فاطمہ کا قصور، اور بھی بے شمار بچوں کا قصور غربت سے زیادہ ہمارے معاشرے کی وہ حرکات ہیں جس میں ہم پہلے قدم پہ ہی مظلوم پہ شک کرتے ہیں۔
رضوانہ کیس میں میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ پہلے لاکھوں روپے لے کر بچے بھیج دیتے ہیں پھر جب وہ کام نہیں کرتے تو مالکان ہڈیوں میں سے پیسے نکلواتے ہیں۔
کئی لوگوں کے خیال میں یہ سب بے چارے مالکوں سے پیسے اینٹھنے کا بہانہ ہے، باقی ماندہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ این جی اوز اور میڈیا چینلز کا دھندا ہے۔معدودے چند کو اس دکھ کا اندازہ بھی ہے مگر یہاں بھی ہم قانون سازی کا ذکر کرتے ہیں۔ 14 سال سے کم عمر بچوں سے کام کروانا خلاف قانون ہے۔سوال یہ ہے کہ جس گھر میں 10 بچے منہ کھولے بیٹھے ہوں اور کمانے والا بمشکل دو وقت کی روٹی بھی پوری نہ کر پا رہا ہو وہاں 10 سال کی بچی بھی 14 سال کی نظر آتی ہے۔ ان گھروں کے کیلنڈر تیز چلتے ہیں۔دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جن لوگوں نے بچی بھیجی اور جن لوگوں نے بچی کو گھر کے کُل کام کے لیے رکھا ان کے کیلنڈر بھی کیا تیز چلتے ہیں؟
بچی کو ملازم رکھوانے والے کو شاید جج صاحب کی چاپلوسی مقصود ہو تاکہ ہمارے بھیانک نظام انصاف میں اگر ان پہ کوئی افتاد پڑے تو جج صاحب کی آنکھ میں حیا ہو۔جج صاحب نے شاید کم عمر بچی کو اس لیے رکھ لیا کہ یہ بچے اپنے گھروں میں بھی تو سب کام کرتے ہیں یہاں تو حالات بہتر ہیں۔
فاطمہ کیس میں ابھی سب کچھ مبینہ ہے مگر یتیم بچوں سے بھی زیادہ مظلوم گھروں میں کام کرنے والے ان بچوں کے ساتھ یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ان کم عمر بچوں کو اپنے گھروں میں بھی تحفظ حاصل نہیں۔ سکول کے راستے غیر محفوظ ہیں، سکولوں کے استاد بھی اس قابل نہیں کہ ان پہ اعتبار کیا جا سکے۔تعلیم کا راستہ اتنا طویل ہے کہ غریب ماں باپ اتنے برس بچوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اور ڈگری کے بعد بھی نوکری کی کیا ضمانت ہے؟
آبادی میں اس بے تحاشہ اضافے اور آمدن کے قلیل مواقع ہونے کے باعث گھریلو کام کاج ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جہاں یہ بچے اور عورتیں نسبتا محفوظ ہوتی ہیں۔مگر ایک کے بعد ایک اس طرح کے واقعات ہمیں چونکاتے ہیں اور ڈراتے ہیں۔
جہاں ریاست کمزور ہوتی ہے وہاں معاشرے کے اندر ایسی روایات پیدا ہو جاتی ہیں جو پسے ہوئے طبقات کو مدد بھی فراہم کرتی ہیں اور ان ہی روایات کی توہین کرتے ہوئے ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔
ان مسائل کا حل کیا گھریلو کام پہ مکمل پابندی یا 14 سال سے کم عمر بچوں کے کام کرنے پہ پابندی سے مل جائے گا؟ ایسے بہت سے گھر ہیں، ایسے بہت سے بچے ہیں جو ان گھروں میں واقعی ایک اچھی زندگی گزارتے ہیں۔
ان گھروں میں انہیں بعض اوقات پڑھنے اور کچھ بننے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ بہت سے خدا ترس لوگ ان غریب کنبوں کا پورا خرچ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اوسط آمدن رکھنے والے قریباً ہر گھر کے ساتھ دو سے تین غریب کنبے اسی وسیلے سے وابستہ ہیں۔
رضوانہ جس حالت میں ہے اس سے بچ سکتی تھی۔ اگر اس کو ملازم رکھنے والی خاتون اسے صرف جاندار سمجھ کر اس کی صحت، خوراک اور خوشی کا خیال کر لیتی۔ بہت ممکن تھا یہی رضوانہ اس پڑھے لکھے گھر سے جج بن کے نکلتی۔ اس گھر کے مکینوں نے یہ موقع کھو دیا۔رضوانہ زندہ بچ گئی، فاطمہ نہیں بچی۔ مگر اب بھی بہت سی رضوانہ اور فاطمہ ہمارے چاروں طرف، گھر گھر میں کام کرتی پھر رہی ہیں۔ان بچیوں کا بچپن اور مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ریاست کسی ضروری کام سے سوتی رہے گی، اسے جگاتے رہیے اور اپنے چاروں طرف موجود ان بچوں پہ رحم اور شفقت کا ہاتھ رکھیے۔ یہ بہت قیمتی بچے ہیں ان کی قدر کیجیے۔
واپس کریں