دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پاکستان کبھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے گا ؟
رحمت اللہ کنڈی
رحمت اللہ کنڈی
اگرسوچ یہی رہے تو کبھی بھی نہیں بلکہ اس طرح کی ذلت آمیز حالت ہمارا مقدر رہے گی۔ پاکستان کی آبادی کو دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک طبقہ جو کہ مراعات یافتہ ہے اور انگریز کی باقیات پر مشتمل ہے پکی نوکری والوں کا ہے۔ اور دوسرا طبقہ عام لوگوں پر مشتمل ہے۔ پکی نوکری والوں نے ہمیشہ ملک کے وساٸل کو بے دردی سے لوٹا ہے۔ ان کو عام آدمی کی زندگی سے کوٸ سروکار نہیں۔
یہی لوگ ملک میں پالیسیاں بناتے ہیں اور ان پالیسیوں میں اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے۔کہ ان کا کنٹرول ملکی معاملات پر بدستور برقرار رہے۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی پکی نوکری والوں کے زیر اثر ہے۔ ہر پڑھے لکھے نوجوان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ بھی ان پکی نوکری والوں کی صف میں شامل ہوجاۓ۔
دوسرا طبقہ جو عام لوگوں پر مشتمل ہے وہ بھی ذہنی طور پر پکی نوکری والوں کا غلام بن چکی ہے۔ اور ان میں اتنی ہمت نہیں جو اپنے حقوق کے لۓ آواز بلند کر سکیں۔ ایسے میں سیاست دان واحد طبقہ ہے جن کو عوام کی محرومیوں کا احساس ہے۔ بد قسمتی سے پکی نوکری والوں نے سیاست دانوں کو زیر عتاب رکھا ہوا ہے اور ان پر ہمیشہ غداری اور کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
اداروں کو اس مقصد کے لۓ بھرپور طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت اور قانون اور آٸین کی بالادستی سے جڑا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں پڑھے لکھے طبقے۔ عدلیہ۔ صحافی اور سیاست دانوں پر بہت بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ عدلیہ کا کردار ناقابل رشک رہا ہے۔ کچھ جرآت مند ججوں نے اس سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی ہیں لیکن ان کو بدنام کرنے کا سلسلے بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ آج کل کے حالات میں سوشل میڈیا کا رول بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ لوگ اس آلودہ نظام سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کا اظہار کھل کر رہے ہیں۔
ہمیں اب آگے بڑھنا ہے۔ اور یہی ہمارا مستقبل ہے۔ ہمیں چرچل کے اس قول کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
If you are going through hell, keep going.
Write to Rehmat Ullah Kundi
واپس کریں