ڈاکٹر اعتزاز چوہدری
قائداعظم کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی بے پایاں جدوجہد سے آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہونیوالے ملک خداداد پاکستان کا 75واں یوم آزادی قومی و ملّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس روز ہم اللہ کے حضور شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے آزادی کی عظیم نعمت سے نوازا۔ افسوس!ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ اس تاریخی دن کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارے آباؤ اجداد نے کتنی جدوجہد اور محنت سے یہ وطن حاصل کیا تھا۔کہ اس پاک سر زمین کو حاصل کرنے کیلئے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمت کو تار تار کر دیا گیا۔ ماؤں کے سامنے انکے معصوم جگر گوشوں کو ذبح کیا گیا۔ 14 اگست تجدید عہد کا دن ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے کا دن ہے۔اور اس روز ہمیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہئییکہ ہم ایک قوم ہیں، ہماری بقاو سلامتی صرف مسلم قومیت میں پنہاں ہے۔ہم اپنے قائد کے فرمان (ایمان،اتحاد،تنظیم)پرعمل پیرا ہو کر ہی ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں۔اور ہم بحثیت قوم برداشت،اتحاد،ایثار،اخلاص سے ہی اقوام عالم میں سرفراز و سر بلند ہو سکتے ہیں۔قیام پاکستان کے مقاصد‘ اسکے نظریہ اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں 13 جنوری 1948ء خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“
اگست 1947ء میں مجلس قانون سازسے تاریخی خطاب کے دوران بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے اس مملکتِ خداداد میں اقلیتوں کے تحفظ اور جمہوریت کے حوالے سے خطاب میں فرمایا: ”پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں‘ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو‘ اس سے پاکستان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری ریاست میں ایک فرقے یا دوسرے فرقے میں کوئی تمیز ہوگی نہ ذات اور عقیدے کا امتیاز ہو گا۔ ریاست کے تمام باشندے مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ اب ہمیں اس بات کواپنا نصب العین بناناچاہیے اور پھر کچھ عرصہ بعد آپ دیکھیں گے کہ ہندو‘ ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان‘مسلمان نہیں رہے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے۔ وہ سب ایک قوم ہو جائیں گے۔“ یقیناقائداعظم کا یہ خطاب ان کی جمہوریت پسندی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ان کے زرّیں خیالات کا عکاس ہے۔ 13 جولائی 1947ء کو بھی قائداعظم نے اقلیتوں کو یقین دلایا کہ ”اس نئی مملکت میں انہیں اپنے مذہب‘ عقیدے‘ زندگی اور تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا۔ وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔“ بابائے قوم حضرت قائداعظم کی تقاریر و بیانات سے یہ امر روزِ روشن کی مانند واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظریہ حیات کے اصولوں پر مبنی ریاستی اور سماجی ڈھانچے کی تشکیل کے خواہش مند تھے اور مسلمانانِ برصغیر کے لیے محض ایک آزاد مملکت کا قیام ہی ان کا مقصود نہ تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمان وہاں آزادی کے ساتھ اپنے ضابطہ حیات‘ اپنی تمدّنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔اورجب پاکستان وجود میں آیا تویہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت تھی۔ کفر و شرک کے گڑھ برصغیر میں یہ د ین حق کی ایک مضبوط علامت بن کرابھرا۔ اس کا قیام درحقیقت باطل قوتوں کے سینے میں خنجر پیوست ہو جانے کے مترادف تھا۔ عالمی سامراج کی ریشہ دوانیوں نے اس مملکت کے اندرونی حالات کواس قدر ابتر کر دیا کہ اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے اس کے ازلی دشمن بھارت کو کاری وار کرگزرنے کا موقع مل گیا۔ 1971ء میں مملکت دولخت ہو گئی۔ ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کے نیتاؤں کی اصل ذہنیت سے پوری دنیا واقف ہے جو روزِ اوّل سے ہمارے وجود کے درپے ہیں اور ہماری شہ رگ کشمیر پر ناجائز طور پر قابض ہے۔مملکت پاکستان کو آج عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن نے کا اعزاز حاصل ہے۔جس سے اس کے وجود کے درپے دشمنوں کی اْمیدوں پر ہمیشہ کیلئے اوس پڑ گئی جب ان کیلئے پاکستان کو عسکری لحاظ سے تسخیر کرنا ممکن نہ رہاتو انہوں نے اسے اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازشیں شروع کر دیں۔ آج کل یہ سازشیں عروج پر ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبا اور شام میں آگ لگانے کے بعد اب پاکستان کو دہشت گردی‘ فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ سی آئی اے، را، موساداور کئی دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ملک کے اندرسرگرم عمل ہیں۔ اس وقت ہمارے دیرینہ مکار دشمن بھارت میں پاکستان دشمن ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کی حکومت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف جو گھناؤنی سازشیں کی جا رہی ہیں اور شہ رگ پاکستان کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کیلئے بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز نے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اسکے پیش نظر آج یوم آزادی کے موقع پرقوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو انکی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا اور ملک کی سلامتی‘ خودمختاری کے تحفظ کیلئے بھی پوری قوم کا یکجہت ہونا اور اسکے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔جبکہ اس موقع پر تمام سیاسی قیادتوں کو اسی حوالے سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ انکے سیاسی مفادات اور کوتاہ بینیاں کہیں ملک کو پھر اس جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کے راستے تو ہموار نہیں کررہیں جس کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد و خودمختار ارض وطن کے خواب کو حقیقت کے قالب میں ڈھالا تھا۔ آج ہمیں جمہوریت کے تحفظ اور ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا چاہیے۔ دہشتگردی، سیاسی خلفشار اور علاقائی حالات بلاشبہ قومی یکجہتی و یگانگت کے متقاضی ہیں۔
واپس کریں