دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’خطرے ‘کی گھنٹی
 مظہرعباس
مظہرعباس
خطرےکی گھنٹی، تو بج چُکی ہے انجام کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے تمام نظریں اعلیٰ عدلیہ پرکہ ـ ’انصاف ‘ کا ’پلڑا‘ کہاں گرتا ہے خاص طور پر جب تناؤ بھی اندر ہی محسوس کیا جا رہا ہو۔ کسی اعلیٰ عدلیہ کے’جج‘ کے ماسٹر بیڈ کے اندر بلب کیساتھ ’خفیہ کیمرہ‘ کا نصب ہونا، کسی جج کے بہنوئی کے مبینہ اغوا اور ’دباؤ‘ کی مختلف اقسام کا استعمال اور پھر ایسے میں چھ ججوں کا اِس پر کھڑے رہنا اور کئی ساتھی ججوں کی ’خاموش حمایت‘ وغیرہ وغیرہ، غیر معمولی واقعات ہیں۔ بہت سی تفصیلات ایسی ہیں جو میں بیان نہیں کرسکتا لیکن چند دِن اسلام آباد میں رہ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ’خطرہ‘ صرف دستور کو نہیں ’شاہراہِ دستور‘ کو بھی ہے۔
جو بات کسی زمانے میں اٹارنی جنرل یا وزیر قانون کے ذریعہ ’ججوں‘ کو پہنچائی جاتی تھی اب براہ راست ہی کر دی جاتی ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ کبھی قابلِ فخر نہیں رہی، کم ہی دیکھنے میں آیا کہ عدلیہ نے ’آئین وقانون‘ کا تحفظ کیا ہو ورنہ شاید ’اس ملک میں ’نظریہِ ضرورت‘ کی بنیادوں پر فیصلے نہ ہوتے۔ اب تویہ ’نظریہ‘ بھی ہماری اشرافیہ کا ’بیانیہ‘ بن گیا ہے جسکی حالیہ مثال ’ہائبرڈنظام‘ کی قبولیت ہے جس کو اُن سیاسی جماعتوں نے بھی قبول کر لیا ہے جو اسے خود ’ہائبرڈ‘ کہتی تھیں۔ ’خطرے کی گھنٹی‘ یہ نہیں کہ یہ ’نظام‘ تبدیل ہونے جا رہا ہے‘ کون بچ رہا ہے اور کون جا رہا ہے بلکہ زیادہ بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ ’نظام‘ کہیں ایسے ہی ناچلتا رہے اور غیریقینی صورتحال مزید خرابی کی طرف جائے۔ خیر سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر 1، کو تو میں برسوں سے دیکھتا آرہا ہوں یوں سمجھیں کہ اُس وقت سے جب 1998 ء میں دو سپریم کورٹ لگا کرتی تھیں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اجمل میاں کی۔ مگر اِس بار اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کورٹ نمبر 1 میں جانے کا اتفاق ہوا اور دونوں جگہ کچھ ’دوستوں‘ سے بات چیت سے اندازہ ہوا کہ معاملے کی سنگینی کس حد تک تشویشناک ہے بس اِس سے آگے کچھ نہیں کہوں گا کہ ALL IS NOT WELL اُن چھ ججوں کے خط کا اب کیا بنتا ہے یہ تو پتا نہیں تاہم اطلاع یہی ہے کہ یہ مسئلہ آسانی سے حل ہونے نہیں جا رہا اور تحقیقات بھی آسان نہیں کیونکہ اگر تحقیقات ہوں بھی تو کیسے اور کون کرائے کیونکہ ’’اُسی عطار کے لونڈے سے تو دوا نہیں مانگی جاسکتی‘‘۔ تاہم اگر یہ بات ثابت ہے کہ ’کیمرہ نصب ہوا تھا، یا بہنوئی اغوا ہوا تھا یا براہ راست دباؤ آیا تھا تو ’بال‘ سپریم کورٹ کے ’کورٹ‘ میں ہے ، ویسے تو آج تک اُسکی تحقیقاتی رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی جب پچھلی بار سینٹ کے الیکشن میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرہ پکڑا گیا تھا۔ لہٰذا جہاں عدلیہ اوراس میں کام کرنیوالے، ججز غیر محفوظ ہوں جہاں پارلیمان غیر محفوظ ہو کسی کی آڈیو لیک تو کسی کی ویڈیو لیک سامنے آنے پر بھی آج تک سزا تو دور کی بات سرزنش تک نہ کی گئی ہو وہاں کیسی جمہوریت، کیسی آزاد عدلیہ اور کیسا نام نہاد پارلیمانی نظام۔
اِس وقت اگر کوئی سب سے کمزور نظر آرہا ہے وہ کوئی اور نہیں وزیراعظم اور اُنکی کابینہ ہے جو ایک ’ہائبرڈ نظام‘ کی تصویر نظر آ رہا ہے اَب ایسے میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور حکمراں نہ صرف اعلیٰ عدلیہ میں ’ریفارم‘ کے نام پر کوئی ’قانون‘ لانے کی تیاری کررہے ہیں یا کرائی جارہی ہے۔ اور میڈیا کا بھی قبلہ درست کرنے میں مصروف ہیں ۔بس اُن سے صرف اتنی گزارش ہے کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب بھی ذاتی مقاصدحاصل کرنے کیلئے کوئی اقدام اُٹھایا گیا وہ خود گلے پڑگیا جس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹّو کا مقدمہ ہے بلکہ اِسی مقدمہ کے دوران جب ایک بارغیر ملکی وکیل یااٹارنی کی خدمات حاصل کرنے کی بات آئی تو جو قانون نیشنل عوامی پارٹی کیخلاف حیدرآباد ٹرائل کیلئے بنایا گیا تھا تاکہ غیرملکی وکیلوں کی معاونت نہ حاصل کی جاسکے، وہ روکاوٹ بن گیا۔
بظاہر اس وقت حکومت دو بڑوں کے درمیان ’سینڈوچ‘ نظر آ رہی ہے ایک طرف طاقتور قوت ہے اور دوسری طرف مقبول ترین قوت یا یوں کہہ لیں’گیٹ نمبر 4‘ اور قیدی نمبر 804۔ انتظار ہے تو بس طاقتور ترین پلیئر کا جسے اعلیٰ عدلیہ کہتے ہیں۔ کیا انصاف کا توازن برقرار رہ پائے گا بس یہ دیکھنا ہے اور وہ ایک ایسے ماحول میں آسان نہیں۔ جہاں سب کا اپنا اپنا سچ اور اپنا اپنا انصاف کا پیمانہ ہو۔ 9 مئی سے 8 فروری تک ہونیوالے واقعات کے نتیجے میں ایک ’حکومت ‘ اور پارلیمنٹ تو معرض وجود میں آگئی مگر آج بھی نہ جیتنے والے کو یقین ہے کہ وہ جیتا تھا اور نہ ہی ہارنے والا یہ تسلیم کرنے کو تیار ہے کہ وہ ہارا تھا اور اِس سب کاذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان جس کا دفتر بھی ’ شاہراہِ دستور‘ پرہے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ آسان ترین حل تویہ تھا کہ الیکشن ٹربیونل چارماہ میں تمام درخواستوں پرفیصلہ دیتا جوقانونی تقاضا ہے مگریہ باتیں تووہاں کی جائیں جہاں کوئی مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہو۔
9 مئی کی پہلی برسی پر ’شکوہ جواب شکوہ‘ نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیاہے۔ شاید اُس دن اِن تمام باتوں سے گریز کیا جاتا اور صرف اتنی بات ہوتی کہ پچھلے ایک سال میں واقعہ کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں، فوجی عدالتوں یا اسپیشل کورٹ میں کتنوں کو سزا ہوئی، سپریم کورٹ کے فیصلے کےکیا نتائج نکلے اس حوالے سے ماسٹر مائنڈ کے مقدمہ میں کیا ہوا تو شائد بات زیادہ آگے نہ بڑھتی۔ ’معافی‘ کا مطالبہ ہوا تو دوسری طرف سے ’انکار‘ نے معاملے کو مزید سنگین کردیا۔ ابھی تو بات چیت ہی شروع نہیں ہوئی تو کیسا بریک تھرو اور کیسا ’ڈیڈلاک‘ ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بنا دیں، فیصلہ کرلیں معاملہ 2014 ء سے شروع کرنا ہے یا 9مئی، 2023 ء سے۔ کمیشن کو اختیار ہو جس کو چاہے طلب کرے اور 90روز میں فیصلہ دے جس پر تمام فریقین پہلے تسلیم کریں کہ وہ فیصلے کو مانیں گے۔ یاد رکھیں ’قبولیت ‘ کے ’مقبولیت‘ کونہ ماننے کے نتائج ہم 1954 سے دیکھ رہے ہیں۔
رہ گئی بات قیدی نمبر 804 کی تو سنا ہے سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنا تعارف یانام ہی یہ رکھ لیا ہے۔ ابھی حال ہی میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی، جو ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد عوامی ایوانوں میں نظرآتے ہیں ،نے مجھے بتایا کہ وہ اڈیالہ جیل میں خان سے ملے تو اُس نے اپنا تعارف کچھ اس طرح کرایا۔ ’’آئیں ڈاکٹر صاحب میں قیدی نمبر 804 ‘‘ سنا ہے عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد علوی صاحب کی سابق اعلیٰ فوجی قیادت بشمول انٹیلی جنس چیف سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ایک بار تو بات تین نکات پر آگئی تھی۔ (1) وزیراعظم نئے انتخابات کااعلان کریں (2) الیکشن کو فری اینڈ فیئربنانے پر مطمئن کیاجائے ، یعنی یقینی بنایاجائے اور (3) گارنٹی دی جائے کہ الیکشن میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سیاست اورجمہوریت کومضبوط کرناہے تو’عدم مداخلت ‘ کے اصولوں پر۔ یہ فیصلہ بہرحال پارلیمنٹ کو کرنا پڑے گا۔ قبولیت کو مقبولیت کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔
واپس کریں