خالد خان۔ کالم نگار
میں ہمیشہ سے پنجاب کی ترقی اور پشتونوں ، بلوچوں اور سندھیوں کے زوال کے وجوہات پر سوچتا رہا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا۔ میں نے کتب بینی کی، اساتذہ سے استفسار کیا، سیاستدانوں کی رائے جاننا چاہی اور اہل فکر و نظر کو ٹٹولا مگر کوئی تسلی بخش جواب اور ٹھوس وجہ نہیں جان سکا۔ ہر ایک کے پاس اپنی کہانی تھی اور یوں مجھے زوال پزیر اقوام بجائے بیدار لوگوں کے محض قصہ گو لگے جو زیب داستان کے لیئے اپنے اندھے عقائد کے اسیر تھے۔ ہر وقت شکوہ کناں لوگوں کو چھوڑ کر پھر میں نے پنجابیوں پر خصوصی توجہ دی اور الحمد اللہ میں پنجاب کی ترقی کے راز کو پاگیا۔ پشتون دنیا میں واحد اہنے آپ کو بہادر قوم سمجھتے ہیں تو پھر پاکستان میں وہ کیونکر پنجابیوں کو حقیر نہیں سمجھیں گے۔ مگر عجب طرفہ تماشا یہ ہے کہ جہاں پشتون اپنے آپ کو بہادر اور پنجابیوں کو بزدلیر سمجھتے ہیں، وہی اگلے لمہے وہ پنجاب کے استحصال اور پشتونوں کو غلام بنائے رکھنے پر نوحہ کناں ہوتے ہیں۔عجب منطق اور نرالہ دلیل ہے کہ بزدلیر بہادروں پر حکومت کرتے ہیں۔ کہیں ہم لغت میں تو غلطی نہیں کر رہے ہیں۔ کہیں ہم نے لفظوں کے معنی الٹ تو نہیں لیئے ہیں۔ جو غالب ہوتا ہے وہی بہادر ہوتا ہے اور جو مغلوب ہوتا ہے وہی مصلوب ہوتا ہے۔اگر پنجابی فاتح اور پشتون یا دیگر اقوام مفتوح اور غلام ہیں تو پھر بہادر کون ہوا؟ ہے نا عجیب بات؟ مگر اس سے بڑھ کر متخیر کرنے والی بات یہ ہے کہ پشتونوں ، سندھیوں اور بلوچوں کے پاس اپنی ہزاروں سال پر محیط تاریخ ، ثقافت ، فتوحات اور نجیب الطرفین ہونے کے دعوے تو ہیں جبکہ پنجابیوں کے بارے میں ان سب کا کہنا ہے کہ انکی تو کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ یہ تو کوئی قوم ہی نہیں ہے۔عجیب مخمصہ ہے کہ بے نام و نشان پنجابی نے پھر کسطرح ناموروں کو ادھ موا کر دیا ہے؟
میرے خیال میں پنجابی ماضی کے قید سے آزاد ، حال میں خوش اور مگن اور مستقبل کے لیئے پر امید لوگ ہیں جبکہ پشتون ، سندھی اور بلوچی ماضی کے قیدی ہیں جنکی سوئی "پدرم سلطان بود" پر اٹکی ہوئی ہے۔ کسی شاعر نے ویسے تو نہیں کہا ہے کہ
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یہ پسماندہ اقوام شائد ماضی کا عذاب جھیل رہے ہیں ، شائد مکافات عمل کے شکار ہیں۔
پنجابیوں کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس قوم پنجابی کا رونا باقی اقوام رو رہے ہیں، پاکستان تو کیا دنیا بھر میں کسی پنجابی قوم کا وجود ہی نہیں ہے۔ جی جناب پنجابی کے نام سے کوئی قوم نہیں ہے البتہ پانچ دریاوں کے دیس میں جو مختلف النسل اقوام آباد ہیں وہ غلط العام اصطلاح میں پنجابیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ پنجابیوں کا سب سے بڑا کمال ماضی کو بھولنا ، حال کے تقاضوں کے مطابق زیست کرنا اور مستقبل کے حساسیت کو نظر میں رکھتے ہوئے خود کو وقت ، حالات اور ماحول میں ڈال کر ہم رنگ وقت اور زمانہ ہونا ہے جو انکی کامیابی ، کامرانی اور سرفرازی کی واحد وجہ ہے۔ پشتون ، سندھی اور بلوچی اپنی تاریخ، زبان اور دیرینہ ثقافتوں میں پھنسی ہوئی اقوام ہیں اور یہی طرز فکر ان کی پاوں کی زنجیر بنی ہوئی ہے جو انہیں آگے جانے سے روکتی ہے۔ ان اقوام کے مقابلے میں پنجابی سچے اور پکے مسلمان ، مٹی کی محبت سے مالا مال اور اتفاق و اتحاد کے جذبے سے سرشار اپنے ہیروز کو چاہنے والے لوگ ہیں اور ایسے ہی لوگوں کا زندگی پر حق ہوتا ہے۔ پنجابی جب متحدہ ہندوستان میں تھے تو مطیع ، صلح جو اور پرامن شہری تھے۔ پنجابی جب باہم تقسیم ہو کر پاکستان اور ہندوستان کے باسی بنے تو سرحد کے اس پار پکے پاکستانی اور سرحد کے اس پار سچے ہندوستانی ہوگئے۔ مجال ہے کہ کبھی بھی اس ملک کا سوچا ہو جس ملک میں ہزاروں سال سے آباد تھے یا بچھڑنے پر کبھی ملال ہوا ہو۔ نئی شناخت کو اس شدت سے دل و جان سے اپنا گئے کہ وہی پنجابی آج پاکستان لگتے ہیں ، حقیقی پاکستان ۔ ایک عام بات جو دیگر اقوام میں بلا سوچے سمجھی کہی جارہی ہے کہ ریاست پنجاب کو پاکستان سمجھتی ہے ، اس حقیقت سے لاعلمی ہے کہ پنجابی پاکستان پر اتنی شدت سے ایمان لائے ہیں کہ اب یہ فرق اور تمیز مشکل ہے کہ پاکستان کون ہے اور پنجابی کون؟ دوسری طرف دیگر اقوام آج تک تاریخ کے قبرستان میں اپنے ابا و اجداد کی ہڈیاں ڈھونڈ رہے ہیں اور اپنے تانے بانے ان ممالک اور ان جغرافیوں سے ملانے کی کوششیں کر رہے ہیں جہاں پر بطور قوم وہ
" ناپسندیدہ اقوام " کی فہرست میں شامل ہیں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ملک کا لبادہ خود نوچتے ہوئے اقوام عالم میں خود کو برہنہ کر رہے ہیں۔ ایک اور المیہ ان اقوام کا یہ ہے کہ ہنوز اپنے ابا و اجداد کے مذاہب کو نہیں بھلا پائے ہیں اور اعتقادی طور پر منقسم ہونے کے باوجود بھی اسلام کے ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں۔ انکے برعکس پنجابی چاہے جتنے مذاہب پر رہے ہوں ، انکے پرکھوں نے جن جن خداوں کو پوجا ہوں، کلمہ پڑھنے کے بعد صرف مسلمان ہیں اور مجال ہے کہ کبھی بھی اپنے پرانے عقائد اور مذاہب کے حوالے سے انہیں کوئی رنج، کوئی قلق ، کوئی ندامت ، کوئی پچھتاوا اور کوئی افسوس ہو۔ مسلمان ہو گئے تو بس مسلمان۔ پاکستانی ہوگئے تو بس پاکستانی۔ دیگر اقوام ایک قوم ہونے کے باوجود قبیلوں میں منقسم اور قبائلی تعصب کے غلام ہیں جبکہ پنجابی کوئی قوم نہ ہونے کے باوجود پانچ دریاوں کی نسبت سے کثرت سے پنجابی وحدت میں مجسم ہوگئے ہیں، پنجابیت میں سمٹ چکے ہیں ۔ جنتے اقوام پنجاب میں پائے جاتے ہیں شائد ہی پنجاب جتنے رقبے میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو مگر اسلام اور پاکستان کی پناہ میں آتے ہی وہ ایک پنجابی قوم بن گئے۔ دیگر اقوام کی طرح پنجابیوں میں قبائلی تعصب قطعا بھی نہیں ہے البتہ نسلی تفاخر ضرور ہے جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق شناخت کے لیئے ضروری ہوتا ہے۔ پنجاب میں تمام پنجابی صرف مسلمان پاکستانی پنجابی ہیں جبکہ دیگر صوبوں اور اقوام میں تقسیم در تقسیم مصنوعی انفرادیت کی شناختیں ہیں جو انکی اپنی زندگیوں کو عذاب بنا چکے ہیں۔ پنجابی اگر چہ اپنی اسلاف اور ان کے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جانے کے لیئے ایک تکریم کے روادار ہیں مگر انکے ہیروز اسلام اور پاکستان سے نکلتے ہیں جن کو وہ عقیدت کے انتہا تک تسلیم کرتے ہیں اور سراہتے ہیں۔ پنجابیوں کے مقابل دیگر پاکستانی اقوام آج تک ہزاروں سال کے تراشیدہ ہیروز کے پرستش میں لگے ہوئے ہیں۔ پنجاب ہی میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی بیلٹ کی مثال لے لیجئے جو دیگر اقوام کی طرح اپنی الگ شناخت کی غلام گردشوں میں گھوم رہے ہیں اور اسی ایک پنجاب میں پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دیگر پاکستانی اقوام کے مقابلے میں پنجابیوں نے آج بھی اپنے ثقافت کو زندہ رکھا ہے بلکہ اسے دنیا سے منوایا بھی ہے جبکہ باقی پاکستانی اقوام کی ثقافتی شناخت صرف اقوام متحدہ کے علامتی ثقافتی دن کی تقریبات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جس نے اسلام کو قبول کیا، پاکستان کو تسلیم کیا اور اپنی مشاہیر کی توقیر کی وہی ترقی کر گئے۔اب اسے کیا کہا جائے کہ جو آگے گئے وہ پنجابی تھے اور جو پیچھے رہ گئے انہیں ان حقیقتوں کا ادراک ہی نہیں ہوسکا تھا۔ اگر پاکستان میں رہنا ہے اور ترقی کرنا ہے تو مسلمان اور پاکستانی بن کر رہنا ہوگا ورنہ بقول شاعر
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو۔
واپس کریں