دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شکریہ وانی صاحب۔ کالم نگار، آصف اشرف۔ راولاکوٹ
مہمان کالم
مہمان کالم
جس کا کوئی نہیں اس کا خدا، برسوں سے یہ سن بھی رہے تھے اور کہہ بھی مگر آج اپنی آنکھوں سے یہ عملی طور دیکھا۔ گئے دنوں ایک پیارے نے اپنے تعلق اور اثر سے آزاد کشمیر میں دانش سکولز منظور کروائے حکومت پاکستان نے تین سکولز کی منظوری دی اصول یہ تھا کہ تین ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر ز پر یہ ادارے بنتے ادارے قومی ورثہ ہوتے ہیں اور یہ میرٹ پر بنتے ہیں میں حلفیہ لکھ رہا ہوں کہ ان سکولز کی منظوری میں کسی سیاسی لیڈر کا کوئی کردار نہیں تھا نہ ن لیگ آزاد کشمیر کے کسی ایک بھی لیڈر کو خبر تک تھی مگر ان منظوری کے بعد وقت کی انتظامیہ سے مل کر خلاف میرٹ یہ سکولز اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا لیے ۔
شاہ غلام قادر نے مظفرآباد کا سکول نیلم اور مشتاق منہاس نے راولاکوٹ کے بجائے باغ اور وہ بھی اپنے گاؤں منتقل کروا دئیے پونچھ ڈویثرن کا سکول پونچھ نہ بننے بڑی حیرت ہوئی راولاکوٹ شہر میں بڑی وسعت والی سرکاری زمین موجود تھی مگر اس پر ترجیح باغ کے پدر گل شیر گاؤں کو ملی باغ بھی دھرتی ماں جموں کشمیر کا حصہ ہے وہ بھی راولاکوٹ کے جیسا راولاکوٹ سے تعصب برت کر پہلے ایجوکیشن کالج یہاں سے اٹھا کر باغ منتقل کیا گیا اہل راولاکوٹ نے اعتراض نہیں کیا فوجی فاؤنڈیشن سکول شفٹ کیا خاموشی رکھی میڈیکل کالج راولاکوٹ بنا تو باغ میں احساس محرومی ختم کرنے وقت کے صدر ریاست یعقوب خان نے بار خواتین یونیورسٹی کا ادارہ منظور کروا دیا مگر اب جب شہباز شریف حکومت سے پونچھ کے ایک بیٹے نے زاتی اثر ورسوخ سے تین دانش سکولز منظور کروائے اور اصول یہ تھا کہ ہیڈ کوارٹر ز پر بنیں تو مشتاق منہاس اور شاہ غلام قادر نے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر پر دباؤ ڈال کر اپنے گھروں منصوبے منتقل کروا دئیے تو وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر بھی میرپور کا سکول بھبمر لے گئے بندہ ناچیز نے ایک زریعہ کو سورس بنا کر میاں نواز شریف تک اپنا مقدمہ پہنچایا جاتی امراء میں اس مقدمہ کو پزیرائی ملی مگر چیف سیکرٹری نےلیت ولعل سے کام لیا اور سارا قصور پونچھ انتظامیہ پرڈال دیا پھر وہی جو جو منظور خدا تھا جس کا کوئی نہیں اس کا خدا تعلق نے پھر اثر دکھایا اور بیوروکریسی میں موجود سیکرٹری تعلیم حکومت پاکستان محی الدین وانی امید کی کرن ثابت ہوئے شاید اس کی وجہ یہ ہوئی ہو کہ وانی صاحب بھی کشمیری النسل ہیں کھبی سوچتا ہوں کہ عالم ارواح سے کہیں اشفاق مجید وانی شہید اور پروفیسر عبدالاحد وانی کے ساتھ مشاورت کرکے ڈاکٹر غلام قادر وانی جیسے تین شہیدوں نے سندیسہ بھیج کر سفارش نہ کی ہو کہ محی الدین وانی صاحب آپ اسلام آباد میں با اختیار ہو اور راولاکوٹ میں آصف اشرف انا کی تسکین کے لیے بہت مایوس ہے اس کو بھی اس کے شہر راولاکوٹ میں دانش سکول چاہیے اور پھر وانی صاحب کی کشمیریت پھڑکی انہیں آبائی وطن کشمیر یاد آیا۔
ان کے جذبات بھی جاگ گئے ایک شہر راولاکوٹ میں دانش سکول کی خاطر چھ اور سکولز منظور کر دئیے اب میرپور اور کوٹلی بھی راولاکوٹ کے ساتھ سکول سے مستفید ہو ں گے تو شمالی کشمیر بھی محروم نہیں رہے گا گلگت سکردو میں ایک ایک سکول بنے گا اور ایک تیسرا جی بی حکومت طے کرے گی مجھے قطعی کوئی ملال نہیں کہ ن لیگ کی لیڈر شپ نے میرپور کوٹلی اور راولاکوٹ میں دانش سکولز منظور کروانے کیوں اوازنہ اٹھائی اس لیے کہ گیارہ ماہ کی عوامی تحریک میں جس طرح ن لیگ پیپلز پارٹی تحریک انصاف مسلم کانفرنس کے پی پی استحکام پاکستان پارٹی کے مظفرآباد اسمی میں تمام پارلیمانی لیڈر ایک قرار داد تک لانے گریزاں رہے اور پھر بھی عوامی تحریک بجلی اور آٹے پر ساری قوم کو تاریخی ریلیف دلا کر باور کرانے کا میاب ہوئی اسی طرح کوئی سبب اور ذریعہ قدرت نے مہیاء کر دیا جس کی دلچسپی لگاؤ اور خلوص نے آزاد کشمیر کے تعصب اور سیاسی مداخلت پر نظر انداز کیے گئے تینوں بڑے شہروں میرپور کوٹلی اور راولاکوٹ کو دور جدید کی جدید تعلیم سے بہرہ ور کرنے غریب اور نادار طلبہ اور طالبات کے لیے دانش سکول کی نعمت عظمیٰ سے مستفید کروایا بلکہ ساتھ اپنی ریاست کے خطہ ارض شمال کو بھی اسی طرح مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جس طرح راولاکوٹ میں میڈیکل کالج کی خاطر اس وقت مظفرآباد اور میرپور بھی میڈیکل کالجز بنائے تھے ۔
محی الدین وانی صاحب نے اہل کشمیر پر اپنے ایک عزیز کی سفارش پر جو نوازشات کیں اس کو اجر عظیم انہیں وہ مبارک زات ہی دے گی جس نے انہیں یہ شعور بھی دیا اور ادراک بھی کروایا کہ حق دار کو حق دینا چائیے میں سفارش کرنے والے اس عزیز محترم کو سامنے لانے اس لیے گریزاں ہوں کہ اس کا پس منظر میں رہنا ہی وقت کی ضرورت ہے ابھی پہلا پھتر لگا ہے اور عمارت کی تعمیر کروانا ہمارا مقصد ہے ابھی آزاد کشمیر اسمبلی سے اس کالے قانون کا خاتمہ ترجیح ہے جس کے زریعہ ملازمت سے تعلیم تک پونچھ کے لائق فائق طلبہ اور طالبات کے میرٹ کا برسوں سے قتل جاری ہے کوٹہ سسٹم کا کالا قانون بھی ہمارے لاڈلے عزیز کا اثر ورسوخ اور سفارش ختم کروائے گا غریب کے بچوں کو دانش سکول جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعیلم دے گا مجھے پورا یقین ہے بلکل ویسا یقین ہے جب حالیہ عوامی تحریک کے مرک عمر نذیر کشمیری کو بجلی ایشو پر تحریک چلانے جب میں نے تجویز دی تھی تب مجھے یقین کامیابی تھا شہر راولاکوٹ کے بیسوں لوگ گواہی دے سکتے ہیں بہت ساروں سے شرط لگا رکھی تھی اور کامیابی نہ بھی ہوئی بجلی بلز پر ٹیکسوں کا خاتمہ ضرور ہوگا کیوں ایک وجہ تھی جو میں اور میرا خدا جانتا ہے اگر وجہ آج سامنے لا دوں تو ہر حقیقت پسند کی آنکھوں سے سیلاب کی مانند آنسو نکل آئیں گے۔
ایسے ہی دعوے سے لکھ رہا ہوں کہ راولاکوٹ میں دانش سکول سے فارغ التحصیل طلبہ اور طالبات سے ایک نہیں کہیں عالمی سطح پر نام کمائیں گے کیوں ۔۔۔۔یہ کہانی بڑی دلخراش ہے اس کا سارا کریڈٹ محی الدین وانی صاحب کو جائے گا ان کی دلچسپی اور لگن نہ ہوتی تو کھبی بھی ایسا ممکن نہ تھا شاید لوگ ابھی ادراک نہیں کر پا رہے کہ دانش سکول کتنا اہم ہے انہیں جب باور ہوگا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی جیسا ادارہ دانش سکول کی صورت انہیں ملا تب وہ خوشی سے مر نہ جائیں رہا وہ پس پردہ رہنے والا سفارشی تو فی الحال چند ماہ وہ گمنام ہی رکھا جائے گا حکمت عملی کا تقاضہ یہی ہے اور مجبوری بھی اس نے دھرتی ماں جموں کشمیر سے وفا نھبائی ہے اس نے اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں سے وفا نھبائی ہے وہ ہمارا مان ہے وہ ہمارا مستقبل ہے وہ ہمارا اثاثہ ہے نام ونمود کی نمائش شہرت سے وہ مبرا ہے وہ کام کا بندہ ہے اور کام ہی اس کی شہرت ہے کل جب وہ ہزاروں طلبہ اور طالبات کے قاتل کوٹہ سسٹم کے کالے قانون کو اپنے اثر و رسوخ سے ختم کروائے گا وہ ہمارا ہیرو بن جائے گا تب اس کی اجازت سے اس کو سکرین پر لایا جائے گا مگر مجھے نہیں لگتا وہ اپنی ملازمت کے اختتام تک وہ خود کو منظر عام پر لانے کی اجازت دے وہ گمنام رہنا چاہتا ہے خاندانی لوگوں کا وصف یہی ہوتا ہے وہ گمنام رہنا چاہتے ہیں میری سب دعائیں اس گمنام عزیز کے لیے اور میرا سلام عقیدت محی الدین وانی صاحب کے لیے۔
واپس کریں