دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سائنس اور خدا متضاد نہیں۔محمد یوسف بھٹی
مہمان کالم
مہمان کالم
پاکستانی امریکن ڈاکٹر سہیل زبیری امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس کے مشہور پروفیسر ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں چیئرپرسن کے عہدے پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے سائنس اور مذہب کے موضوع پر مضامین معاصر جریدوں اور آن لائن ویب سائٹس پر چھپتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مذہب کے مابعدالطبیعات جیسےدقیق موضوعات کو سائنس کی سادہ اورعام فہم زبان میں پیش کرنے پرمہارت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خدا اورسائنس کے بارے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ: ’’ہماری سوسائٹی کےایک بڑےحصے میں یہ تصور عام ہےکہ سائنس مذہب کی شدید مخالف ہےاور سائنسی سوچ الحاد کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ یعنی الحاد سے مراد خدا اور مذہب کی نفی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک غلط العام تصور ہے کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف یا متضاد علوم ہیں حالانکہ سائنس ایسانظریاتی اورتجرباتی مضمون ہےجو قدرت کے بنائےہوئےقوانین فطرت کی ترجمانی اورتشریح کرتی ہے ناکہ یہ مذہبی عقائد اور تعلیمات کو رد کرتی ہے۔
سائنس اورمذہب کےدرمیان پائی جانےوالی اس غلط فہمی کی وجہ سے سائنس کے کچھ طلبااپنی کم علمی کی وجہ سےخدا کےتصور کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ بنیاد پرست مذہبی طبقہ کے لوگ سائنس سے عدم واقفیت کی بنا پرسائنس کو ناپسند کرتےہیں یایہ دونوں طبقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ شائد سائنس اور مذہب واقعی ایک دوسرے کے متوازی مضامین ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔کوانٹم فزکس کے جدید نظریات و تجربات مثلاً ’’وقت میں سفر‘‘ متوازی کائناتیں اور ’’بگ بینگ‘‘ کے نظریات کائنات کی ابتدا کو جاننے کے بارے میں سرگرداں ہیں۔ یورپ کے وسط میں سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں واقع دنیا کی سب سے بڑی سائنسی لیبارٹری سرن (SERN) میں دنیا بھرسے آئے ہوئے 3000 سے زیادہ سائنس دان 24 گھنٹے تجربات کے ذریعے اس بات کا کھوج لگانےمیں مصروف ہیں کہ کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی، یہ کیوں ہے یااس کاحقیقی خالق اور موجدکون ہے۔ ان تجربات کے دوران ’’انٹرنیٹ‘‘ اور ’’گارڈ پارٹیکلز‘‘ (Higgs Bosson) جیسی حیران کن ایجادات ہوئیں اور اب چھوٹے پیمانے پر اس ’’بڑے دھماکہ‘‘ (Big Bang) کو انجام دینے کے تجربات ہو رہے ہیں جس کے بعد پہلی بار ہماری موجودہ کائنات معرض وجود میں آئی تھی تاکہ پتہ چلایاجاسکے کہ مذہب کے مابعدالطبیعاتی عقائد کے مطابق جاناجاسکے کہ کائنات کا اصل مقصد کیا ہے۔سائنس اپنی تعریف اورکام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی ایسا مضمون ہے کہ اس کا تعلق قدرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے ناکہ کائنات کے خالق جیسے آفاقی تصور کی مخالفت کرنا ہے۔ بہت سارے سائنس دان سائنس کو پڑھنے اور اس کے عملی تجربات اور ایجادات کے بعد مذہب میں داخل ہوئے کیونکہ آپ سائنس کو جتنا زیادہ گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں آپ اسی قدر اس حقیقت سے آشکار ہوتے چلےجاتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے کام کرنے کے پیچھے کوئی بڑا اور عظیم ذہن کارفرما جس کی وجہ سے یہ منظم قوانین کی بنیاد پر کام کر رہی ہے، اور کائنات کا یہ طبیعیاتی نظام اس قدر منظم اور مربوط ہے کہ اس میں بال برابر بھی کمی بیشی آئے تو یہ کائنات ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کام کرنا بند کر دے گی۔
زمین پر زندگی اپنی قدیم اورایک خلیے پر مبنی بنیادی شکل میں کائنات کے تقریبا 4ارب سال قبل وجود میں آنےکےبعد ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی صرف 20لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودارہوئی توانسانی گروہ افریقہ سے نکل کر یورپ اور ایشیا میں پھیلتے گئے، انسانی تاریخ کاسب سےنمایاں واقعہ 10000سال قبل زراعت کےعروج کےساتھ پیش آیاجس کےبعد صنعتی انقلاب برپاہوا،پھر یورپ میں احیائے علوم یعنی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘کی تحریک نےجنم لیامغربی دنیا میں سائنسی انقلاب برپا ہواجبکہ آج انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کےبل بوتے پر’’کوانٹم فزکس‘‘ کے دورسےگزررہا ہے۔
کوانٹم سائنس کےجن مختصرمگرجدید نظریات کاپہلےذکر کیاہےوہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی مجرد قسم کے حقائق ہیں جن کو سمجھنے کے لیےمحض سائنس ہی نہیں مذہب کے الہامی اورمابعدالطبیعاتی عقائدکاسہارا لیےبغیر مذہب کی بنیادیعنی’’حقیقت مطلقہ‘‘ تک پہنچناتقریباناممکن ہے۔ الہامی عقل(وحی) کےعلاوہ سائنس ہی وہ واحد تجرباتی علم ہے جو یہ ٹھوس سفرطے کرواسکتا ہےبلکہ کوانٹم سائنس کی دیگر جدید اورحیران کن تھیوریز مثلاً قانون غیرٹیلی پورٹیشن اوردہرے ذرات کےمطالعہ سےتو ایسالگتا ہےکہ جدید سائنس دوبارہ الہامی و مذہبی عقل کی طرف پلٹ رہی ہے۔
مزیدبرآں سائنس ایک ارتقائی علم ہےمگر مذہب یا خداکے بارے انسان کا تصور اس کے اندر فطری اورپیدائشی طورپرموجودہے(یعنی “Built In” ہے)کہ انسان اپنے شعورو فہم کی طرف پلٹتے ہی جس سب سے پہلےسوال کےبارے میں سوچتا ہے وہ خود اس کی اپنی تخلیق ہے جس کے لیے وہ خدا جیسی کسی عظیم ہستی کامحتاج ہے۔ ا سائنس ایک ایسا علم ہے جو نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر کرتا ہے یوں سائنس اورمذہب کو متصادم سمجھنا یاتصور کرنادراصل ایک علمی کج فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس بحث میں البرٹ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ جیسے بڑے سائنس دان بھی مغز ماری کرتےرہے ہیں۔ آئن سٹائن نے خدا کے تصور کوتسلیم کیا اور کہا، “میں سپائینوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہوں” ( Albert Einstein stated “I believe in Spinoza’s God”) اور ہاکنگ نے خدا کا انکار کرنے کے باوجود “گرانڈ ڈیزائن” (جیسی معرکتہ الآراکتاب لکھی جو کائنات کے بارے خدا کے بنائے ہوئے نظم و ضبط اور فطری قوانین کے بارے میں ہے۔ مذہب اور سائنس ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ایک حتمی اور غیرمتبدل ہے اور دوسرا ارتقاپذیر ہےجیسا کہ خود سٹیفن ہاکنگ کی “بلیک ہولز” (Black Holes) کی تھیوری میں دوسری عام کائنات میں کام کرنےکےباوجود طبیعیات کے تمام قوانین بلیک ہولزمیں جاکرمنہدم ہوجاتےہیں حتی کہ دنیا کی تیز ترین رفتار روشنی بھی وہاں سے گزرتےہوئے گم ہوجاتی ہے یعنی سائنس یہاں بھی قدرت کے اس راز کی نظریاتی تعبیر پیش کرتی ہے ناکہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔
واپس کریں