دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عقابی روح اور ننّھی بچّی (۱)کبیرخان
مہمان کالم
مہمان کالم
یہ اُن سہانے سلونے دنوں کا ذکر ہے جب ہم صحافی اُسے سمجھتے تھے جس پر صحائف اُترتے ہوں اور اخبار نویس ہمارے نزدیک خبری ہوتا تھا۔ لاعلمی کے اُس دور میں پونچھ کا اکلوتا ترجمان”ہفت روزہ“ سرفروش ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا۔ اور مدیر سرفروش راولپنڈی سے بقدم خود راولاکوٹ کچہری پہنچ کر اخبار میں مطبوعہ اشتہارات کا معاوضہ عدالتوں اور عنایت بیکری سے دستی اور نقدی وصول کرتے تھے۔اُسی دور میں راولپنڈی سے چھپنے اور آزادکشمیر کے تینوں اضلاع(میرپور، پونچھ اور مظفرآباد) تک پہنچنے والے ایک نئے ہفت روزہ ”عقاب“کا غوغا بلند ہوا۔ ہمارے پیٹی بھائی نِکّے شاہ باغی ایک ہفتے کے نائٹ پاس سے لوٹے توباغ سے عقاب کی ایک کاپی ہمارے لئے بھی لے آئے۔ ہم نسیم حجازی کے روزنامہ”کوہستان“ کے ہِلے ہوئے تھے،کیا کہتے۔ تاہم چکھ کر دیکھا توروزنامہ کوہستان کے”گیٹ اپ“ سے ہفت روزہ عقاب کا ”شٹ اپ“(موڈ) ہم نے زیادہ ”لاوٗڈ اینڈ کلیئر“ پایا۔ لیکن عقاب کی پرواز شورکوٹ تک نہ تھی۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ ہمارا تبادلہ ہو گیا، ہم خود اُڑ کر عقاب کے گوانڈ چکلالہ میں آن اُترے۔ دوچار روز کے بعد شام کے وقت ہم عقاب سے دوچار ہونے کے لئے پوچھتے پاچھتے صدربازار راولپنڈی جا پہنچے۔ کاسمک ہوٹل کے سامنے ہمیں جمعیت المجاہدین پونچھ کے بانی و تا حیات صدر جناب شریف قادری بدستِ خود ”مظفرآباد چلو“کا اشتہار ٹیلیفون کے مقامی کھمبے پر چسپاں کرتے ملے۔ اُن سے ”عقاب“ کا مقام پتہ پوچھا تو بولے۔۔۔۔۔”عقاب کا ”اَڑا“ تو وہ سامنے والے چوبارے کی پانچویں ”پڑچُھٹی“ پر ہے لیکن دفترنیچے پاکستان بوُٹ ہاوٗس میں لگتا ہےِ، پچھان بھلا کیوں۔۔۔؟،اس واسطے کہ جوتوں کی دُکان میں پورے پانچ پنکھے چوبیس سو گھنٹے فُل اسپیڈ سے چلتے ہیں۔۔۔۔۔، ایمان نال بوُٹ ہاوٗس والا حاجی صاحب بڑا ہی بِیبا بندہ ہے۔۔۔۔“
ہم بوُٹ ہاوٗس میں داخل ہوئے توایک سیلزمین نے جودھپوری گُرگابی کو مکھیاں اُڑانے والے آلے سے جھاڑتے ہوئے ہماری اور پیشقدمی کی۔ہم نے جھٹ پوچھا عقاب کا اتا پتہ۔۔۔۔؟
”ساتھ والی دُکان کے پہلوُ میں پرانے کپڑوں کا نیا بورا دھرا ملے گا، اُسے سرکائیں تو ایک سرنگ اوپر سے نیچے آتی نظر آئے گی،آپ نیچے سے پیر پیراُوپر چڑھتے جائیں، جہاں کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹیں اورایسی ہی دیگر غیر پارلیمانی آوازیں سُجائی دینے لگیں، دیوار کو دھکا دیں،در کھُل جائے گا۔۔۔۔“
ہم نے غیر یقینی سے دیکھا تو وہ بولا۔۔۔۔:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی دُکانوں میں
توُ شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اور اس کے ساتھ ہی شعر کے”مطبل“کے طور پر ایک ٹیٹنی بھی بجا ڈالی۔ ٹیٹنی کے تعاقب میں ہم اُس کے بتائے ہوئے ”صراطِ مستقیم“ پر چڑھتے چڑھے گئے۔ بسیرے کا بھِتّ ہمارے منہ کی طرح کھُلا تھا۔ لیکن اندر بندہ نہ بندے کی ذات۔ البتّہ بے خصمی پھڑپھڑاہٹیں در و دیوار سے سر ٹکڑا رہی تھیں۔
ہم قصرہائے سلطانی سے اتنے ہی ڈرتے ہیں جتنے بھوُت بنگلے سے۔ چنانچہ دبے پاٗوں اٹکل سے سیڑھیاں اُترنے لگے۔ یہی کوئی دو اڑھائی منزلیں ریورس گئیرمیں اُترے ہوں گے کہ اندھیرے کے دیو سے ٹکر ہو گئی۔۔۔۔ ”کون ہے۔۔۔۔؟ آنکھیں کھول کر نہیں چل سکتے؟“۔ جی میں آئی یہی سوال ہم اُس سے پوچھیں لیکن فوراً خیال آیا کہ بچپن میں شیر سمجھ کر ہم خواب میں جس پرچڑھ دوڑے تھے وہ شیر کا بچّہ نہیں،نِکّیچاچے کا لیلوٹھ تھا۔اور اُس لیلوٹھ کے چھوٹے چھوٹے مگر تیکھے تیکھے سینگ بھی تھے۔ ہمارے دونوں ہاتھ بیساختہ اپنے پچھواڑے سے چپک گئے۔ واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ ایسے نازک مواقع پر سگریٹ کی طلب دو چند ہو جاتی ہے۔ ہم نے سگریٹ سلگانے کے لئے لائٹر جلایا تو مدمقابل نے ہمارے منہ سے سگریٹ جھپٹا اور بھاری چپلوں تلے کچل ڈالا۔۔۔۔۔۔ ”اتنے کا دودھ پی لیا کرو، انسانیت آ جائے گی۔ میں روزانہ آدھ سیر دودھ میں دو چپاتی چوُر کر کھاتا ہوں، آج تلک کبھی کُتّے کھنگ نہیں لگی۔ یہ زکام وکام تو الرجی کا شاخسانہ ہے۔ ویسے بھی کھُل کرایک مردانہ چھینک مار دوں تو پاس پڑوس کے دو چار سانڈ جَوتے تڑوا کر تتر بتر یو جاتے ہیں۔ پھپھڑوں میں دم ہو توانسان کا بچّہ ککّو کی نَکّی بھی ایک سانس میں چڑھ چُڑھ جاتا ہے۔۔۔‘ میں آدھے میں“۔
صاحبو! وہ صاحبِ عقاب ہمیں باقاعدہ ”پنگھڑاٹھی“ سے پکڑ اپنے نشمین میں لے گیا اور ”پوٹے بھار“ایک ایسے ”اڑے“ میں بٹھا دیا جس کی ننگی کیلیں اوپر کو نکلی ہوئی تھیں۔ چند لمحوں میں اس حسنِ انتظام کی وجہ ہماری سمجھ میں بھی آگئی۔۔۔۔ عقاب کے نشیمن میں زیادہ دیربیٹھ کراپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ ہم نے اچٹتی سی نگاہ میز کے اُس پارمدیر عقاب کی مسند پرڈالی۔۔۔۔، وہ بھی کم و بیش ویسی ہی واقع ہوئی تھی۔
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
تاہم نائب مدیر (بشیر سرفی؟) گھنٹوں سے عقاب کی کرسیِ ادارت پر ٹک کربیٹھتے تھے۔۔۔۔، حیران کُن تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف گھر سے ایک ایسا ”سائی دار“کُشن ساتھ لاتے تھے جس سے کیلیں تب تلک منہ نہیں نکال سکتی تھیں،جب تلک مسند آرا بے دھیانی میں کھُل کر قہقہہ نہ مارڈالے۔ بشیر سرفی کی متانت کا بھید بھی افشاں ہو گیا۔ جب ہم جان گئے کہ ویک اینڈ پر عقاب کے دفتر بے خطرآیا جا سکتا ہے تونائب مدیرکی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ایک پورٹیبل کُشن کی تلاش شروع کی۔ لیکن
(۲)
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جس
آخرسوچ بچار کے بعد سپلائی سیکشن سے اپنے لئے سیکنڈ ورلڈ وار کا متروک ایک خوُد اِیشو کروا لیا۔ جس میں امتتداد زمانہ سے یہ خوبی پیدا ہو چلی تھی کہ جب جی چاہا سرپراوڑھ لیا،جب ضرورت پڑی حفظِ ماتقدّم کے طورپر نشست تلے دھر لیا۔اسی انتظام و انصرام کے ساتھ ہم مہینوں ہفت روزہ عقاب کے دفتر آتے اور ونّ پِیس میں لوٹ جاتے رہے۔ یہاں تک کہ فقروں جملوں کے ساتھ سردار اسحاق خان کے ”ہوائی چپّوں“ کے عادی بھی ہو گئے۔
امتداد زمانہ کے ساتھ عقاب کے بال و پر مدیر عقاب کی طاقتِ پرواز کا ساتھ نہ دے پائے۔ مگر سردار اسحاق خان کی عقابی روح نچلا بیٹھ سکتی تھی نہ بیٹھ پائی۔ اُنہوں نے علاقہ کی ایک بڑی علمی شخصیت سردار محمد افضل خان سے اسٹیشنری کی چلتی دُکان خرید لی۔ لیکن چلتی دُکان کے چلتّر عقابی اُڑان کا کما حقہ ساتھ نہ دے پائے۔ جلد ہی وہ طاقچے جہاں درسی کُتب اوراسٹیشنری سجی ہوتی وہاں عوامی مطالبات ٹھُسے ہوئے تھے۔ کسی گاہک کے ہاتھ بیچنے کی بجائے اکلوتے تختہ سیاہ پرارباب بست و کشاد کے کالے کرتوت سفید چاک سے رقم کرکے ایصال ثواب کی خاطر سرعام لٹکانا شروع کردیئے۔ (اس سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا کہ موصوف جمانروُ صحافی ہیں)۔ اور یہ کہ ایسی صحافت کو راولاکوٹ کی آب و ہوا زیادہ دیر خوش نہیں آئے گی۔ لیکن عقابی خصلت سردار اسحاق خان آسانی سے ہتھیار ڈالنے والے نہیں تھے۔۔۔۔ اُنہوں نے مظلوم کو ریڑھی پر سجا کر ظلمت کے جلوس نکالنا شروع کر دیئے۔ احتجاج کا یہ نیا انداز حکّام بالا و والا کی برداشت سے باہر تھا۔ دوسری طرف دُکان پر مظلوموں کا ہجوم دن بدن بڑھنے لگا۔ موصوف نے دوستوں کے مشوروں کے عین برعکس انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان کردیا۔ جس دن سردار اسحاق خان نے اعلان کیا، انتظامیہ کے پوٹے ٹھنڈے پڑ گئے۔ اُن کی مشکلیں آپی آپ آسان ہو گئیں۔ خود ہم نے جب یہ دیکھا کہ صحافت سیاست کی گود میں جا بیٹھی ہے تو ہوائی جہازکے ڈالے سے لٹک کر شرق اوسط کو ہو لئے۔ تب سے اب تک ہم نے سردار اسحاق خان کو بچشم خود دیکھا نہ موصوف کو ہماری ”مونہہ اکھ“ (مواخ؟) نصیب ہوئی۔
سردار اسحاق خان مشہور و معروف سیاسی و سماجی شخصیت ہونے کے علاوہ پکّے پیڈے دانشور بھی ہیں۔ اور یہی پختگی اُن کی واحد کمزوری بھی ہے۔ وہ وہاں بھی علم و دانش کا بے دریغ استعمال کرجاتے ہیں، جہاں اس کے برعکس صلاحیتیں بہتر نتائج لاسکتی ہیں۔ مثلاً ”رائیول“ فٹ کلبوں کے درمیان بھخے ہوئے میچ میں معاملہ ریفری اور متحارب ٹیموں پر چھوڑنے کی بجائے معزز شہری تصفیہ کرانے میدان میں اُتریں گے تو میچ بھی ہاتھ سے جائے گا، عزتِ سادات بھی مجروح۔ جسے ہمارے بیان پر شک ہو وہ آنجہانی ہفت روزہ عقاب کے اداریے پڑھ کر دیکھ لیں، طبعیت خاطرخواہ نہ سنبھلی تو جو سزا چور کی وہ ہماری۔
سردار اسحاق خان کی ایک ہی پیاری سی بیٹی ہے جو بچپن میں اللہ میاں سے کھیلن کوایک اور چاند مانگا کرتی تھی۔ خدا نے اُس کی سُن لی اور اُس کے بابا کو، دہائیوں بعد ایک اور معنوی اولاد کا باپ کردیا ہے۔ لیکن اس نومولود کا نام اس قدر گُنجلک ہے کہ شریف آدمی چکرا سا جاتا ہے۔ پیاری اور معصوم بیٹی کی اس معنوی بہن کا نام ہے:
”۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ اقوام ِ عالم
تخلیقِ کائنات سے تشکیلِ پاکستان و کشمیر کی تباہی تک
قوموں کا عروج و زوال۔۔۔۔“
ہم نے اس نومولود کا ابھی تلک صرف فوٹو دیکھا ہے۔ کبھی اس سے ملاقات ہوئی تو اس کا ایک اچھا سا نثری قصیدہ کہنے کی پوری کوشش کریں گے۔ تب تلک خدا حافظ
واپس کریں