دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں اصل معاشی کھلواڑ کب شروع ہوا؟
حماد شیخ
حماد شیخ
پاکستان میں اصل زیادتی 2001 سے شروع ہوئی۔۔ جب اس ملک کو تاجروں کا ملک بنا دیا گیا۔۔۔ مطلب یہ کہ ہر چیز کم داموں پر چین سے درآمد کر لو۔۔ اور بھاری منافع پر صارف کو بیچ ڈالو۔۔۔ ہوتے ہوتے یہاں ہر طرح کی چھوٹی انڈسٹری برباد ہو گئی۔۔ مثالیں تو بہت ہیں۔۔ لیکن طوالت سے بچنے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔۔۔ میں کالج میں پڑھتا تھا جب میرا برانڈرتھ روڈ لاہور آنا جانا شروع ہوا۔۔ مجھے یاد ہے، لاہور میں جا بجا Tube Lights, Patti-Fittings, Tube-Chokes اور Starters بنانے کی فیکٹریاں لگی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک تو میرے گھر کے پاس تھی۔۔ اب دھڑا دھڑ امپورٹ شروع ہوئی تو پہلے چین سے سستی لائیٹیں اور پھر انرجی سیورز منگوا لیے گئے۔۔۔ اور یہ لوکل چھوٹی انڈسٹری برباد کر دی گئی۔۔۔ اب حالت یہ ہے کہ ہر چیز ڈالرز میں امپورٹ ہوتی ہے جو عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔۔۔
دوسری طرف بھارت نے کیا کِیا۔۔۔ انہوں نے اپنے ملک کو تاجروں کی بجائے industrialists کا ملک بنایا۔۔۔ ہر چیز اپنے ملک میں بنانے کی کوشش کی گئی۔۔ ڈالرز پر انحصار ختم کیا گیا۔۔ کاروبار پر monopolies یا مکمل اجارہ داریاں ختم کی گئیں۔۔۔ مسابقت کو فروغ دیا گیا۔۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روزگار پیدا ہوا۔۔ لوگوں میں تعلیم بڑھی, جس پر انوسٹمنٹ پچاس کی دہائی سے ہی جاری تھی۔۔۔ وہاں 200 ارب ڈالرز ہر سال اب صرف آئی-ٹی ایکسپورٹ سے کمائے جا رہے ہیں۔۔۔ سن 2005 سے 2021 تک بھارت نے 41 کروڑ پچاس لاکھ لوگوں کو خط غربت سے نکالا ہے۔۔۔ جی ہاں۔۔ صحیح پڑھا آپ نے۔۔۔ ساڑھے اکتالیس کروڑ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنا دی گئیں۔۔۔ وزیراعظم مودی جو آپ کو پسند نہیں، اس کے آٹھ سالا دور میں بھارت میں چھ کروڑ ٹیکس گزاروں کا اضافہ ہوا ہے۔۔۔ لوگ ٹیکس دینے کے قابل ہوئے تو ٹیکس ٹُو جی-ڈی-پی شرح %17 کو جا پہنچی ہے۔۔۔ آپ کی بمشکل چھ سات فیصد ہے۔۔
اب ہم نے کیا کِیا۔۔۔ ہم نے پچھلے 20 سال کے دوران ہر industrialist کو چور کہا۔۔ کرپٹ کہا۔۔ جواب میں اس صنعتکار نے بھی پھر ملک کے طاقتور حلقوں سے مل ملا کر اپنے لیے رستے ڈھونڈنے کی راہ ہموار کی۔۔۔ جو بڑے تھے وہ امیر تر ہو گئے۔۔ جو چھوٹے صنعتکار تھے وہ ڈالرز خریدنے لگے یا پراپرٹی ڈیلرز بن گئے۔۔ ویسے یہ پراپرٹی ڈیلنگ بھی جرنل مشرف کی ہی دین ہے۔۔۔ ملک اب ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔۔ مگر طاقت کی لڑائی جاری ہے۔۔ ملکی وسائل اور اختیار پر شکنجہ کسے ہوئے لوگ ملک ٹوٹنے تک اپنا شکنجہ برقرار رکھنے کی ضد پر اڑے ہیں۔۔۔ باقی حالات آپ کے آگے ہیں ہی۔۔۔
1997 میں خود انحصاری کی پالیسی اپنانے کی کوشش کی گئی۔۔ ایک اکنامک ماڈل دیا گیا۔۔ جو ملک کے مالکوں کو پسند نا آیا۔۔۔ یہی ماڈل اس وقت کے بھارتی وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کاپی پیسٹ کیا۔۔ جس کا اعتراف انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد پبلکلی بھی کیا۔۔ اور وہ بھارت، جس کے پاس 1997 میں ایک ارب ڈالر بھی خزانے میں نا تھا۔۔ پاکستان کا ایک روپیہ بھارتی ڈھائی روپوں کے برابر ہوا کرتا تھا۔۔ اور جب بھارت میں چالیس پچاس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔۔۔ آج وہی بھارت خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو کر معاشی و سماجی لحاظ سے مضبوط تر ہے۔۔۔ 600 ارب ڈالر خزانے میں موجود ہے۔۔ وہ BMW اور Mercedes کاریں ان کے انجن اور ٹرانسمیشن سمیت اسمبل نہیں بلکہ مینوفیکچر کر رہا ہے۔۔۔ اور آپ کے لوگ بھارت کو سُوکھی دھمکیاں لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔
تحقیق و تحریر۔حماد شیخ
بی-کام، اے-سی-ایم-اے
اے-پی-ایف-اے
ٹیکس و فنانشل کنسلٹنٹ ۔ممبر ٹیکس بار ایسوسی ایشن
واپس کریں