سرور حسین
13جو لائی کا دن کشمیر کے دونوں اطراف -13 جولائی 1931 کو سری نگر میں ڈوگرہ فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے شہداء کی یاد میں تجدید عہد کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی موجودہ تحریک آزادی اس تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ جس کا اعلان13جو لائی1931ء کو سینٹرل جیل سری نگر کی دیواروں پر چڑھ کر22فر زندان کشمیر نے اپنی جانوں کے نذرانہ کے ساتھ کیا تھا۔13جولائی کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ بیسوی صدی کے تیسرے عشرے میں کشمیریوں نے جس کاز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھامنزل کے حصول کے لئے اکیسوی صدی میں بھی تاریخ کی بے مثال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا علم رکھنے والے لوگ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست میں 1819میں مسلم دور کے خاتمے اورسکھوں کے دور کے آغازکے ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی غلامی کی تاریک رات کا آغاز ہو جاتا ہے۔1846 میں رسوائے زمانہ معاہدہ امرتسر کی صورت میں اہل کشمیر کی ڈوگرہ حکمرانوں کے ہاتھوں فروخت کے بعد صورتحال مزیدابتر ہو گئی۔ریاست کے اندر یکے بعد دیگر ے پیدا ہونے والے بعض واقعات نے لوگوں میں نیا عزم اور حوصلہ پیدا کیا اور وہ پوری قوت کے ساتھ جابر حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
1931ء کے اوائل میں مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ بر طانیہ سے واپس آئے اور خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسلمانوں سے مل کر ان کے مطالبات معلوم کر نا چاہتے ہیں۔ چنانچہ شیخ محمد عبد اللہ لکھتے ہیں کہ "ہری سنگھ سے ملاقات کے لئے مسلمانوں نے جموں میں مستری یعقوب علی، گوہر الرحمن، چوہدری غلام عباس اور شیخ عبد الحمید ایڈوکیٹ کو نامزد کیا اور وادی کشمیر سے نمائندوں کی نامزدگی کے لئے لوگوں کی رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے21جون 1931ء کو خانقاہ معلی سرینگر میں جلسہ کا اہتمام کیا گیا"۔ اسی دوران کشمیریوں پر مہاراجہ کی فوج کے مظالم میں اضافہ ہو گیا۔اپریل1931ء کو ڈوگرہ پولیس نے مسجد میں گھس کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کر دی۔ جس سے کشمیری مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوئے اور21جون کا دن مزید اہمیت اختیار کر گیا۔ چنانچہ اس جلسہ میں لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی۔ بقول شیخ عبد اللہ جلسہ" کشمیری عوام کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت تھا"۔ جلسہ عام سے میر واعظ محمد یوسف، مولانا احمد علی ہمدانی، شیخ عبد اللہ، خواجہ نظام الدین، آغا حسین شاہ جلالی، خواجہ سعد الدین شال نے خطاب کیا اور باہم متحد رہ کر جد وجہد کر نے کا عزم کیا۔
مسلمان لیڈروں نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وہ ڈوگرہ فوج اور پولیس کے تمام مظالم بر داشت کر لیں گے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ جموں اور وادی میں پہلے ہی تناؤ اور کشید گی کا ماحول تھا ڈوگروں کی طرف سے خطبہ جمعہ پر پابندی اور قرآن پاک کی بے حرمتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جموں اوروادی میں ڈوگرہ راج کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ جون 1931ء میں وادی اور جموں میں مہاراجہ کے خلاف سر عام جدو جہد کا اعلان کیا گیا۔جلسے میں شامل عبد القدیر نامی نے مہاراجہ حکومت کے خلاف زوردار تقریر کی۔ عبد القدیر کا تعلق رام پور(یو۔پی) کے پٹھان قبیلے سے تھا اور وہ ایک انگریز میجر کا خانساماں تھا۔ نوجوان کی آواز میں جادو تھا وہ کوئی سیاسی آدمی تھا نہ کوئی مذہبی رہنما۔لیکن اس کی تقریر میں ایک نیا عزم اور ولولہ تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:
"مسلمانو!اٹھو"وقت " آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے یا داشتوں اور گزارشوں سے ظلم وستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی توہین قرآن پاک کا مسئلہ حل ہو گا۔ تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ اور ظلم کے خلاف لڑو"۔ مہاراجہ حکومت نے عبد القدیر کو گرفتار کر لیا اور اس کے خلاف رنبیر پینل کورٹ دفعہ 124(الف) 153کے تحت بغاوت اور غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمہ کی سماعت مسلسل9,8,7جولائی 1931ء کی ہوئی اور پیشی کی تاریخوں پر سنٹرل جیل سے عدالت تک عبد القدیر کو پولیس پیدل لے جاتی ہزاروں لوگ ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے۔ عوامی رد عمل کے خوف سے آئندہ سماعت13جولائی کو جیل کے اندر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو ایک جم غفیر جیل کے باہر جمع ہو گیا اور ہر شخص مقدمہ کی کاروائی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں نماز کا وقت ہو گیا۔ ایک نوجوان نے دیوار کی بلندی پر چڑھ کر آذان دینے کی کوشش کی۔ ابھی اس نے اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ پولیس نے گولی چلا دی جو اس نوجوان کو لگی اور اس نے حیات جاودوں کی خلعت پہن لی۔جذبہ ایمان سے سرشار دوسرانوجوان آگے بڑھا اور آذان دینا شروع کی۔ دوسری گولی آئی اور وہ بھی شہید ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے22فرزندان اسلام ڈوگرہ فون کی گولیوں کا نشانہ بن کر ابد کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس طرح ان شہدا نے اپنے جوان خون سے تحریک آزادی کشمیر کی ٹھوس اور مضبوط بنیاد رکھ دی۔ آزادی کی تحریکوں میں تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔
13جولائی1931ء کے سانحے کے بعد ریاست کے طول و عرض میں ملی بیداری کی ایک لہر اٹھی۔ لوگ وقت کے دہارے کے ساتھ بہنے کے بجائے ایک واضح اور متعین سمت کو تلاش کر نے لگے اور قومی تشخص کی حفاظت اور آزادی کو اجتماعی نصب العین قرار دے دیا گیا۔ قائد ملت چوہدری غلام عباس مرحوم کہتے ہیں کہ" اگر یہ دن کلینڈر میں نہ ہوتا تو یقینا ریاست جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ جو 1931ء سے لے کر آج تک مرتب ہو رہی ہے اور آئندہ بھی مرتب ہوتی رہے گی بالکل مختلف ہو تی"۔
معروف صحافی پنڈت پریم ناتھ بزاز کے الفاظ میں " 13جولائی کاواقعہ سیاسی اور تاریخی اعتبار سے تاریخ کشمیر کے ناقابل فراموش واقعات میں اہم ترین واقعہ ہے"۔ شیخ محمد عبد اللہ اس دن کو اپنی عملی سیاسی زندگی کا پہلا دن تصور کرتے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ "میں ایک زخمی کو سنھبال رہا تھا کہ اس نے دم توڑتی آواز میں مجھ سے کہا کہ عبد اللہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا اب تم آگے بڑھو اور میں آگے بڑھنے لگا "۔08جولائی 2016ء کو کشمیری حریت پسند برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی نے نئی کروٹ لی۔نوجوان نسل کی شمولیت نے تحریک کو نئی قوت عطا کی ہے۔ کشمیری نوجوان بھارتی جارح فوج کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
05 اگست 2019 ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے خطے کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی عوامی مزاحمت، چین بھارت اور پاکستان کے مابین سرحدوں پر کشیدگی نے خطے کے امن کو خطر ے میں ڈال دیا ہے۔ لداخ میں بھارت اور چین کے مابین سرحدی جھڑپوں اور کنٹرول لائن پر بھارت کے جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیاں کسی بڑے المیہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ علاقے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی پر عالمی برادری کا سرد مہری پر مبنی رویہ افسوسناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارح افواج کے ہاتھوں معصو م لوگوں کے قتل عام پر مایوس کن ردعمل نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور دیگر عالمی اداروں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بھارتی حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم خطے میں ایک بڑے تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی صرف خطے کے لئے نہیں عالمی امن کے لئے خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اپنے وفود بھیجیں۔
سر آئینہ۔از: سرور حسین گلگتی۔ ڈائریکٹر کشمیر سنٹر راولپنڈی
واپس کریں