رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ کی ملی وسیاسی خدمات
سرور حسین
رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒکثیر الجہت شخصیت تھے۔اُن کا شمار بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے با اعتماد ساتھیوں میں ہو تا ہے۔کشمیر یوں کی ملی اور سیاسی بیداری میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے اپنی فہم وفراست اور بے لوث قیادت سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی کشمیری قوم کو آزادی کا شعور دیا۔وہ الحاق پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے ترجمان تھے۔
13جولائی 1931ء کے واقعات نے چوہدری غلام عباس کو ریاست کے دوسرے سنیئررہنما شیخ محمد عبد اللہ کے قریب لایا اور دونوں نے شخصی راج سے کشمیری عوام کے حقوق حاصل کرنے کیلئے مل کر جد وجہد کرنے کی کوشش کی۔13جولائی کو ڈوگرہ پولیس نے سرینگر سنٹرل جیل کے باہر گولی چلا کر 22افراد کو شہید اور درجنوں کو زخمی کیا۔اس سانحہ نے کشمیری عوام اور لیڈر شپ کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ اسی سال 1932ء مسلم کانفر نس کا قیام عمل میں لایا گیا۔چوہدری غلام عباس اسکے سیکر ٹری جنرل جبکہ شیخ محمد عبد اللہ اسکے صدر چنے گئے۔چوہدری عباس اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے۔اس کے پیش نظر 1934میں صدر مسلم کانفر نس شیخ محمد عبد اللہ نے چوہدری غلام عباس کو ریاست کے مسلمانوں کے حقوق منوانے کے لئے ڈوگرہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مکمل اختیار دیا۔اسی زمانے میں متحدہ ہندوستان کے بر طانوی حکمرانوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار اور دیگر سیاسی حالت جاننے کے لئے گلیسنی کمیشن قائم کیا۔جب وہ کمیشن سرینگر آیا۔چوہدری غلام عباس نے اس کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کئے۔مسلم کانفر نس کی کوششوں کی وجہ سے ریاست میں ایک نیشنل اسمبلی قائم ہوئی۔جس کے اندر مسلمانان کشمیر کو بہت کم نمائندگی دی گئی۔1935ء میں چوہدری غلام عباس نے بحیثیت صدر مسلم کانفر نس ریاست کے دور دراز علاقوں کا دورہ کر کے مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی۔1937ء تک شیخ محمد عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کی قیادت میں کشمیر کی تحریک ایک متحدہ پلیٹ فارم سے چل رہی تھی۔ہر طرف اتحاد و یگانت نظر آ رہی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1944میں جب قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لے گئے انہوں نے جامع مسجد میں ایک تقریر کے دوران کشمیری قوم کو ایک جھنڈے کے تلے جمع ہونے کی تلقین کی تھی۔قائد کو کشمیر اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت تھی۔پاکستان کے لئے کشمیر کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔
1938میں کشمیری لیڈر شپ کے نظریات دو دھڑوں میں بٹ گئے۔1938ء کے سالانہ اجلاس کے دوران شیخ محمد عبد اللہ نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھنے کی تجویز دی۔10جون 1939ء کو مسلم کانفر نس کی اکثریت نے اس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھا۔اگرچہ یہ فیصلہ مسلم کانفر نس کی اکثریت نے کیا۔لیکن جو لوگ اس کے حق میں نہیں تھے۔چوہدری غلام عباس ان کے اندر بڑی اہمیت رکھتے تھے۔چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کرنے پر سخت مخالفت کی۔اس فیصلہ کے بعد چوہدری غلام عباس کو شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ سخت اختلافات پیدا ہوئے۔سال 1939ء تاریخ کشمیر کا سیاہ ترین سال ہے۔اسی سال میں کشمیری متحدہ قیادت دو حصوں میں بٹ گئی۔دو نظریات ایک دوسرے کے سامنے آئے۔نظریات کی بنیاد پرکشمیری قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔کشمیری قوم کا صدیوں پرانا اتحاد ٹوٹ گیا۔لیکن ریاست کی خوش نصیبی یہ ہے کہ دونوں لیڈر شیخ عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کشمیر میں ایک ذمہ دار انہ حکومت کے قیام کے حق میں تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں کانگر یس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کی حریف بن چکی تھی۔پاکستان مومنٹ اپنے مقصد کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔چوہدری غلام عباس نے مسلم لیگ اور قائداعظم پر اعتماد کر کے اپنی وابستگی کا کھل کر اظہار کیا۔1940ء میں پنڈت جواہرلال نہرو شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر سرینگر تشریف لے آئے۔چوہدری غلام عباس نے انکے ساتھ ملاقات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔1939ء سے لے کر 1941ء تک چوہدری غلام عباس حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔آخر کار اپریل 1942میں انہوں نے مسلم کانفر نس کا دوبارہ احیاء کیا۔اس کا اعلان انہوں نے جموں میں اپنی رہائش گاہ سے کیا۔اس بار انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔
1943ء میں میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے مسلم کانفر نس میں شمولیت اختیار کی۔جس سے مسلم کانفر نس طاقت پکڑ گئی۔1944ء کے دورہ کے دوران قائد اعظم نے سرینگر کی جامع مسجد کے صحن میں ایک ولولہ انگریز تقریر کے دوران چوہدری غلام عباس اور میرواعظ کی حمایت کی تھی۔قائداعظم نے کشمیریوں سے مخاطب ہو کر کھل کے اظہار کیا کہ "آپ سب مسلم کانفر نس میں شامل ہو جائیں۔جب آپ ایک پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع ہو نگے۔تب آپ ذمہ دار حکومت قائم کر سکتے ہیں "۔چوہدری غلام عباس نے قائد اعظم کے سنہری پیغام "اتحاد،ایمان اور تنظیم " کو خوشی خوشی قبول کیااوراس پر عمل بھی کیا۔اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ چوہدری غلام عباس نے پہلی بار ایک منظم طریقے سے جدوجہد بر ائے حصول پاکستان کا نصب العین لوگوں تک پہنچایا۔
1931ء میں ابتدائی طور عوام کی تحریک بندش خطبہ اورتوہین قرآن کے سانحات کے خلاف تھی۔13جولائی کے شہدا ء نے اس جدو جہد کو ایک منظم تحریک میں بدل دیا۔ظلم بڑھتا گیا۔تحریک حریت کشمیر نے ایک ذمہ دارانہ حکومت کا مطالبہ کیا۔شیخ محمد عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کی قیادت میں مسلم کانفر نس اور نیشنل کانفر نس نے عوام کو ڈوگرہ کی غلامی سے نجات دینے کے لئے جد وجہد کی۔لیکن جولائی 1946میں مسلم کانفر نس کی طرف سے ایک ایسی قرارداد سامنے آئی جس کے ذریعے آزاد کشمیر کا مطالبہ کیا گیا۔جولائی کے مہینے میں میر واعظ منزل سرینگر میں چوہدری غلام عباس کی صدارت میں ایک بڑا اجلاس ہو ا۔اس اجلاس کے اندر کشمیر میں آزادی کے لئے "قرارداد آزاد کشمیر "منظور کی گئی۔اس قراردادکے بعد حکومت کے ایوانوں میں آگ لگ گئی۔ڈوگراہ حکمرانوں نے ایک منٹ ضائع کئے بغیر چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا۔اس گرفتاری کے بعد کشمیر کے اندر نظریہ الحاق پاکستان کھل کر سامنے آیا۔میر واعظ نے ایک تقریر کے دوران حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔
14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آتے ہی کشمیر کے اندر پاکستان نواز رہنماؤں اور قائدین کے علاوہ مسلم کانفر نس کے کارکنوں پر قیامت ٹوٹ گئی۔کشمیر کے اندر پاکستان نواز عوام کو مالی اورجانی نقصان پہنچایا گیا۔ان کے کاروبار کو ختم کیا گیا۔صوبہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔لاکھون مسلمان بے گھر ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔جموں کے اندر چوہدری غلام عباس کا گھر تباہ کر دیا گیا۔چوہدری غلام عباس کے خاندان پر ایسے مظالم کئے گئے جن کو تحریر کرنے کے لئے قلم تیار نہیں ہوتی۔1948ء میں چوہدری غلام عبا س کی رہائی ہوئی وہ سیدھے پاکستان آئے۔حضرت قائداعظم نے انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کیا۔انہیں بہت عزت اور احترام دیا۔حضرت قائداعظم،چوہدری غلام عباس کو کشمیریوں کا حقیقی رہنما سمجھتے تھے۔قائداعظم نے ایک بار چوہدری عباس کو "کشمیری زبان "سیکھنے کی ہدایت کی۔چوہدری غلام عباس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں "قائد اعظم نے جواب دیا "دیکھو میں نے اردوزبان سیکھی۔کل میں اردو میں تقریر کروں گا "۔حضرت قائداعظم نے انہیں ریاست جموں وکشمیر کے مہاجرین کا آباد کاری کی ذمہ داری سونپی۔جسے انہوں نے بڑی ذمہ داری سے پورا کیا چوہدری غلام عباس آزاد کشمیر حکومت کے نگران اعلیٰ بھی رہے۔
انہی دنوں میں انہوں نے سیالکوٹ سے اپنا دفتر کوہ مری شفٹ کر کے کام شروع کیا۔چوہدری غلام عباس اس تاریخی معاہدے کے دستخطی بھی ہیں جو معاہدہ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے مابین طے پایا گیا تھا۔اس معاہدے کے تحت گلگت اور بلتستان کا وسیع و عریض علاقہ حکومت پاکستان کو دیا گیا تھا۔کشمیر کی مکمل آزادی تک ریاست جموں وکشمیر کا یہ علاقہ پاکستان کے زیر نگرانی رہے گا۔حکومت پاکستان کی طرف سے مسٹر گور مانی اور حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے سردار ابراہیم خان مرحوم نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔
چوہدری غلام عباس انتظامی عہدوں تک محدود نہیں رہے۔انہوں نے ہر لمحہ کشمیر کی آزادی کی کوشش کی۔انہیں کشمیرلبریشن مومنت بنانے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔انہوں نے مہاجرین کی آباد کاری کے ساتھ ساتھ عوام کو تحریک آزادی کشمیر کے راستے پر لگا کر الحا ق پاکستان کا نظریہ عوام کے دلوں میں مضبوط کیا۔چوہدری غلام عباسؒ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ پاکستان میں انہیں ایسی جگہ سپردخاک کیا جائے جہاں سے کشمیر کو راستہ جاتا ہو۔-18دسمبر1967ء کو وہ خالق حقیقی سے جاملے۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم میں واقع فیض آباد میں اُن کا مزار پاکستان اور کشمیر کے مضبوط بندھن کی عکاسی کرتا ہے۔
تحریر: سرور حسین
ڈائریکٹر جموں وکشمیر لبریشن کمیشن
واپس کریں