کیا امریکہ اور اسرائیل ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روک سکتے ہیں؟
سید عون مجتبی
چند روز قبل خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے نام ایک ایسا خط تحریر فرمایا جو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی سیاسی حرارت کی خبر دے رہا تھا۔
خادم الحرمین الشریفین نے خط میں ایران و امریکہ کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی فرمائی مگر اس کے ساتھ ساتھ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے امریکی خدشات اور عسکری جارحیت پر مبنی اقدامات سے بھی اگاہ کیا۔ یہ پیغام ایران کے لیے ایک سفارتی اشارہ بھی تھا۔اور ایک دفاعی تنبیہ بھی ۔ کہ خطہ ایک بڑے تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل 1948 میں 5000 مربع کلومیٹر پر قائم ہوا، مگر آج وہ 30,000 مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ پر قابض ہے۔یہ توسیع دراصل ایک صہیونی خواب گریٹر اسرائیل کی عملی شکل ہے، جس کا نقشہ دریائے نیل سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔
اسرائیل نے عرب-اسرائیل جنگوں میں شام، مصر، اردن اور لبنان کو شکست دے کر دنیا کو یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ نہ قابل تسخیر ہے اور اپنا کوئی مبارز اور مقابل نہیں رکھتا۔ لیکن 1979 کا اسلامی انقلاب اس خواب کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ابھرا۔ ایران کی نئی اسلامی حکومت نے نہ صرف اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا، بلکہ حماس، حزب اللہ، انصار اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی کھل کر حمایت شروع کر دی۔
یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو نظریاتی چیلنج ملا۔ اسرائیلی عسکری برتری کو ایک غیر عرب، مگر اسلام پر مبنی ریاست نے للکارا۔ حماس کے سابق رہنما شہید اسماعیل ہانیہ کے مطابق ایران کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی طاقت اور ایٹمی خودکفالت کے مخالف امریکہ اور اسرائیل نے مزاحمت کو مذہبی تفریق میں تبدیل کرنے کی نئی حکمت عملی اپنائی۔انہوں نے ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کو شیعہ بمقابلہ سنی، عرب بمقابلہ عجم، سعودی بمقابلہ ایرانی جنگ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلم امہ ایران کے ساتھ کھڑی نہ ہو بلکہ داخلی تقسیم کا شکار ہو جائے۔ یہی وہ چال تھی جو عراق، شام، لبنان، اور یمن میں امریکی اور اسرائیلی پروپیگنڈا کے ذریعے پروان چڑھائی گئی۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بعد ایرانی حکام نے جلد ہی اس اس چیز کو بھانپ لیا کہ اپنی بقا اور مضبوطی کے لیے ایٹم بم ضروری ہے چنانچہ ایٹمی پروگرام پر تیزی سے کام شروع کیا.ایران نے ایٹمی خودکفالت کو اپنی قومی سلامتی کا ستون بنایا۔ اس سوچ کے تحت ایران نے ایٹمی تحقیقاتی مراکز قائم کیے، سائنسدانوں کو تربیت دی۔ باوجود امریکی پابندیوں، سائنسدانوں کے قتل، اور جاسوسی نیٹ ورکس کے، ایران نے اپنا نیوکلیئر سفر جاری رکھا۔ ایران کا مؤقف رہا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، مگر اسرائیل و امریکہ اسے وجودی خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نتھن یاہو نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹم بم نہیں ہونا چاہیے ہم نے پاکستان کو نہ روک کر بہت بڑی غلطی کی ہے مگر یہ غلطی ایران کے وقت نہیں دہرائی جائے گی کیونکہ اس سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے۔ یار کم سے کم مشرقِ وسطیٰ میں صہیونی بالادستی کا خواب ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی ریاستوں کی ایٹمی طاقت اسرائیل کے لیے ایک مستقل خوف ہے۔ صدر ٹرمپ نے تو اپنی انتخابی مہم میں ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کو اپنا سب سے بڑا وعدہ قرار دیا تھا، اور بعد ازاں فلسطین کو ایک جدید، سرمایہ دار "ریاست" بنانے کا منصوبہ بھی پیش کیا ۔ جو درحقیقت صہیونی تسلط کا نیا چہرہ تھا۔
موجودہ صورتحال میں امریکی پالیسی میکرز کے مطابق یہ سب سے مناسب وقت ہے جہاں ایران کو اپنے نیوکلیئر اثاثوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کیونکہ حماس اور حزب اللہ کی طاقت کم ہو چکی ہے ۔شام میں ایران نواز حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اور امریکی حمایت یافتہ حکومت موجود ہے۔ ایران کے اہم مزاحمتی رہمنا ہلاک کیے جا چکے ہیں اور معیشت عالمی پابندیوں سے نڈھال ہے۔اسی بنیاد پر اب ایران کو فیصلہ کن طور پر روکا جا سکتا ہے۔
2003 میں ایران نے ایٹمی سرگرمیاں محدود کیں، لیکن جب اسرائیل نے سائنسدانوں کو قتل کیا، نیوکلیئر تنصیبات پر سائبر حملے کیے (جیسے اسٹکس نیٹ وائرس) تو تہران نے اپنے پروگرام کو مزید سنجیدگی سے آگے بڑھایا۔ 2015 کے "جوہری معاہدے" کے باوجود، امریکہ کے معاہدے سے نکلنے
اور 2018 میں پابندیوں کے دوبارہ نفاذ نے ایران کو دوبارہ یورینیم افزودگی کی طرف مائل کیا۔
اسرائیل کی تمام کوششوں کے باوجود ایران کا ایٹمی پروگرام ختم ہونے کے بجائے زیادہ محفوظ، پھیلتا ہوا اور مؤثر بنتا جا رہا ہے۔ ایرانی دفاعی ادارے اب اپنی تنصیبات کو زمین سے گہرائی میں، یا موبائل یونٹس میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران نے روس اور چین جیسے ممالک سے تکنیکی تعاون حاصل کیا ہے۔
واپس کریں