دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’’آپریشن سندور‘‘
محمد بلال غوری
محمد بلال غوری
بھارت نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ’’آپریشن سندور‘‘کے نام پر جس جارحیت کا ارتکاب کیا ،خاکم بدہن وہ دراصل ایک خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔اس سے پہلے اگلے مورچوں پر گولہ باری ہوتی تھی ،کبھی جنگی جہاز فضائی حدود کی خلاف ورزی کیا کرتے تھے یا پھر بالاکوٹ میں مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کر کے جنگی جنون کی پیاس بجھائی جاتی تھی مگر اس قسم کی مہم جوئی کے دوران دونوں ممالک کی طرف سے یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ محاذ آرائی متنازعہ علاقوں تک محدود رہے اور مکمل جنگ کی نوبت نہ آئے۔ مثلاً بالاکوٹ کے بعد پاک فضائیہ نے بھارتی فوج کے نوشہرہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے کچھ فاصلے پر بم گرائے اور وہاں موجود بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کو نشانہ بنانے سے گریز کیا تاکہ کشیدگی ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھے ۔جب پاک فضائیہ کے ان جنگی جہازوں کی واپسی پر بھارتی طیارے تعاقب کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے اور انہیں تباہ کردیا گیا تو محض 58گھنٹے بعد ہی بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتمان کو واپس کردیا گیا تاکہ جوہری صلاحیت کے حامل دو ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ مگر اس بار بھارت کی طرف سے ایسی واضح جارحیت کا ارتکاب کیا گیا ہے جس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ بھارتی وزارت دفاع کے مطابق پاکستان میں 9مقامات پر حملہ کیا گیا ہے اور پریس ریلیز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ کسی فوجی ہدف پر میزائل نہیں داغا گیا بلکہ عام افرادکو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارت نے جن علاقوں میں میزائل حملہ کیا ہے ان میں کوٹلی، مظفر آباد، سیالکوٹ، شکر گڑھ، مرید کے اور بہاولپور شامل ہیں۔ مساجد اور مدارس پر کئے گئے ان حملوں میں بے گناہ اور نہتے شہری شہید ہوئے۔یعنی یہ کارروائی کسی متنازع علاقہ تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں پر حملہ کرکے دراصل طبل جنگ بجا دیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی جیسے امریکہ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں اس بنیاد پر ڈرون حملے کیے جاتے تھے کہ وہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں، اگرچہ ان ڈرون حملوں پر بھی شدید ردعمل آیا لیکن جب ان ڈرون حملوں کا دائرہ کار قبائلی علاقوں سے باہر بندوبستی علاقوں تک پھیل گیا تو صورتحال نے نیا رُخ اختیار کر لیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان حملوں کے جواب میں امرتسر، دہلی اور دیگر بھارتی شہروں پر میزائل برسائے جاتے لیکن ریاست پاکستان نے ذ مہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک اس قسم کی کارروائی سے گریز کیا ہے البتہ دشمن کے چھ جنگی جہاز گرا کر ثابت کر دیا کہ ملکی دفاع اور سالمیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
بالعموم جنگیں اسی طرح کے اشتعال انگیز اقدامات سے ہی شروع ہوتی ہیں اور ایک چھوٹی سے چنگاری پورے خطے کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ محض ایک کچی سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی تھی؟ سندھ کے ویران اور سنسان علاقے ’’رن آف کچھ‘‘ میں ’’ڈنگ‘‘ اور ’’سرائی‘‘ کے علاقوں کو ملانے کیلئے پاک فوج نے 18میل طویل غیر پختہ سڑک بنائی جس پر سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں اور پھر دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی۔ بزدل اور ڈرپوک دشمن نے اچانک رات کی تاریکی میں حملہ تو 6ستمبر کو کیا لیکن اس جنگ کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ’’رن آف کچھ‘‘ کا علاقہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی متنازع سمجھا جاتا تھا اس لیے دونوں ملکوں نے یہاں چیک پوسٹیں بنانے سے گریز کیا۔ جنوری 1965ء میں پاکستان نے یہاںـ ’’ڈنگ‘‘ اور ’’سرائی‘‘ کو ملانے کیلئے کچی سڑک بنائی تو بھارت نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ یہ علاقے تو قیام پاکستان سے ہی ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ بھارت بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا اور کانجر کوٹ قلعہ سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پوسٹ چیک پوسٹ قائم کر دی۔پاکستان کو اس علاقے میں واضح برتری اور فوقیت حاصل تھی۔ یہ علاقہ بدین ریلوے اسٹیشن سے 26میل دور تھا اور وہاں سے کراچی تک کا فاصلہ 113کلومیٹر تھا جہاں پاکستان کے 8ویں ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ بھارتی سپلائی لائن کیلئے قریب ترین ریلوے اسٹیشن بھوج تھا جو 110 میل کے فاصلے پر تھا اور وہاں سے قریب ترین 31ویں بریگیڈ کا ہیڈکوارٹر احمد آباد میں مزید 180کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ کی طرف سے 51ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو پیش قدمی کا حکم ملا اور بھارت کی سردار چیک پوسٹ تباہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ 9اپریل کی رات پاک فوج نے دھاوا بول دیا۔ سخت لڑائی کے باوجود پہلی کوشش میں کامیابی نہ مل سکی۔ جب 14گھنٹوں کے مقابلے کے بعد فائرنگ تھم گئی تو بھارتی جوان چوکی خالی کر کے پسپا ہو گئے، پاکستانی فوجیوں کو پسپائی کا علم نہ ہو سکا اور وہ بھی واپس اپنے مورچوں میں آ گئے جب بھارتی فوجیوں کو معلوم ہوا کہ پاکستانی فوج نے انکی چوکی پر قبضہ نہیں کیا تو وہ شام ہونے سے پہلے واپس لوٹ آئے اور لڑے بغیر چوکی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ مخدوش صورتحال کے پیش نظر 8ویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل ٹکا خان نے بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں نہ صرف مزید کمک بھیجی بلکہ آپریشن کا کنٹرول بھی خود سنبھال لیا۔ یوں پاکستان کو اس پہلے معرکے میں کامیابی ملی اور بھارتی فوج اسلحہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئی۔ افواج پاکستان نے نہ صرف سردار چیک پوسٹ پر قبضہ کیا بلکہ پیش قدمی کرتے ہوئے سیرابیت اور بیرابیت کی چوکیاں بھی فتح کر لیں اور بھارتی شہر بھوج کی مین واٹر سپلائی لائن کے قریب جا پہنچی۔ اسی کشیدگی کی کوکھ سے آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام نے جنم لیا اور پھر دونوں ملکوں میں باضابطہ جنگ چھڑ گئی۔
موجودہ حالات میں پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب تو ضرور دے گا لیکن اگر عالمی برادری نے اپنا کردار ادا نہ کیا اور بھارت کی بدمعاشی کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر کئی سہاگنوں کے سہاگ اُجڑ جائیں گے اور اس کی ذمہ داری ’’آپریشن سندور‘‘ کی حماقت کرنے والوں پر ہو گی۔
واپس کریں