حامدمیر
اعداد و شمار حیران کن ہیں، رقبے، آبادی اور اکانومی کو سامنے رکھیں تو بھارت کے مقابلے پر پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے لیکن دفاعی صلاحیت میں یہ چھوٹا ملک بھارت کے برابر ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت اور پاکستان ایئرفورس کی ماضی قریب کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہو چکی ہے۔ یہ برتری بھارت کے موجودہ حکمرانوں کیلئےناقابل قبول ہے جو اکھنڈ بھارت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس برتری کا تاثر ختم کرنے کیلئے انہوں نے پروپیگنڈے کو ایک ہتھیار بنا رکھا ہے۔ یہ ہتھیار بھارت کے اندر تو کام کر رہا ہے لیکن بھارت کے باہر کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پاکستان کانفرنس کے انعقاد کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور بھارتی میڈیا ابھی تک اس کانفرنس کی وجہ سے ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر تنقید کر رہا ہے۔
یہ کانفرنس یونیورسٹی کےمِتل انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا میں منعقد ہوئی تھی جو 2017ء میں ایک بھارتی بزنس ٹائیکون لکشمی مِتل کی طرف سے دیئے گئے 25ملین ڈالر کے عطیے سےقائم ہوا۔ جب یہ ادارہ قائم ہوا تو ہارورڈ یونیورسٹی سے وعدہ کیا گیا کہ اس ادارے سے پورے جنوبی ایشیا کے طلبہ و طالبات مستفید ہونگے اور یہاں جنوبی ایشیا پر ریسرچ ہوگی۔ ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہتیش ہاتی کا تعلق بھی بھارت سے تھا۔ اسی لئے یہاں ہر سال انڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا جانے لگا۔ اس مرتبہ یہ کانفرنس 15اور 16فروری 2025ء کو منعقد ہوئی۔ انڈیا کانفرنس کے انعقاد کے بعد پاکستانی طلبہ وطالبات نے مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان کانفرنس کے انعقاد کی اجازت دی جائے۔ پاکستان کانفرنس کے انعقاد کے مطالبے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل ہارورڈ یونیورسٹی سمیت امریکہ بھر کے تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلبہ و طالبات کی تعداد بمشکل 10,988ہے۔ اسکے مقابلے پر بھارتی طلبہ و طالبات 331,602، بنگلہ دیش کے 17,099اور نیپال کے 16,742ہیں۔ مِتل انسٹی ٹیوٹ کو اندازہ نہیں تھا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پاکستانی طلبہ و طالبات انڈیا کانفرنس کے مقابلے پر ایک کانفرنس کا انعقاد کر پائیں گے۔ یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یونیورسٹی نے کانفرنس کے انعقاد کی اجازت دے دی تو پاکستانی طلبہ و طالبات نے فیصلہ کیا کہ اس کانفرنس کو پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کے پروپیگنڈا کا پلیٹ فارم بنانے کی بجائے پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔
مِتل انسٹی ٹیوٹ نے کانفرنس کے انعقاد کیلئے 27اپریل کو تاریخ دی جو اتوار کا دن تھا۔ مقصد صاف ظاہر تھا کہ اتوار کے روز کم سے کم شرکا کانفرنس میں شرکت کریں گےلیکن کانفرنس کے منتظمین نے ہارورڈ کے بلفرڈ سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میگھن او سولیوان کی مدد سے نہ صرف امریکہ کی اہم یونیورسٹیوں کے اساتذہ بلکہ ممتاز سفارتکاروں کوبھی کانفرنس میں بلا لیا۔ پاکستان کی اکانومی پر ہونے والے مباحثوں میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے وابستہ اہم شخصیات شریک تھیں۔ پاکستان کی تاریخ پر امریکہ کی نفٹس یونیورسٹی کی ممتاز اسکالر ڈاکٹر عائشہ جلال کا مکالمہ ہتیش ہاتی کے ساتھ تھا۔ اس کانفرنس کا سب سے بھرپور سیشن پاکستان کی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں تھا جس میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی دوٹوک گفتگو سے کانفرنس ہال بار بار تالیوں سے گونجتارہا اور جب یہ سیشن ختم ہوا تو پورا ہال کھڑا ہوگیا اور دیر تک پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حق میں بلند کی جانے والی آواز پر تالیاں بجاکر اظہار یکجہتی کیا گیا۔ کھڑے ہونے والوں میں پاکستانی حکومت کے نمائندے بھی شامل تھے جن کے پاس کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
جب میں نے پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہم عہدیدار سے پوچھا کہ پاکستان میں کئی مقدمات میں ملوث کئے جانے والے سلمان اکرم راجا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں اتنی بھرپور پذیرائی پر آپ کے کیا جذبات تھے؟پاکستانی سفارتکار نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ پاکستان کی سیاست کو پاکستان میں رہنے دیں۔ یہاں پر راجہ صاحب پاکستان کے نمائندے تھے اور ان کی عزت افزائی پاکستان کی عزت افزائی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک کامیاب پاکستان کانفرنس بھارت کیلئے ایک بم شیل تھا کیونکہ امریکا کی سابق نائب وزیر خارجہ رابن رافیل نے پہل گام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزام پر اہم سوالات اٹھا دیئے۔ بھارتی میڈیا نے پہلے تو ہارورڈ یونیورسٹی پر تنقید کی اور اب لکشمی مِتل سے مطالبہ کیا جا رہا ہےکہ مِتل انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا کا نام تبدیل کرکے مِتل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا رکھا جائے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر نے مجھے بتایا کہ مِتل انسٹی ٹیوٹ کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پہلے بھی آئی تھی کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت دراصل پورے ساؤتھ ایشیا کو گریٹر انڈیا یعنی اکھنڈ بھارت ہی سمجھتی ہے۔ اس امریکی پروفیسر نے مجھے پوچھا کہ کیا کبھی پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں اکھنڈ بھارت پر کوئی کانفرنس ہوئی ہے؟میں نے بتایا کہ مجھے پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں میں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے وہاں کشمیر پر تو بہت کانفرنسیں ہوتی ہیں لیکن اکھنڈ بھارت پر کبھی کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ ہارورڈ سمیت امریکہ کی کئی اہم یونیورسٹیوں میں بھارتی اساتذہ اور ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس انڈین لابی کو اسرائیلی لابی کی مدد حاصل ہے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ یہ تھیوری لانچ کردی ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ صرف ایک مضبوط انڈیا کرسکتا ہے اور انڈیا کو مضبوط بنانے کا راستہ اکھنڈ بھارت کے نظریے میں ہے۔ یہ سن کر میں نے جب انگریزی میں زور سے کہا کہ UNBELIEVABLEتو امریکی پروفیسر نے کہا کہ تین سال پہلے جب ایک انڈین ڈپلومیٹ نے مجھے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور افغانستان دراصل انڈیا کا حصہ تھے لیکن نو آبادیاتی طاقتوں نے انڈیا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئےتو میں نے اپنے طور پر ریسرچ کی۔ ریسرچ کے بعد امریکی پروفیسر کو معلوم ہوا کہ گریٹر انڈیا یعنی اکھنڈ بھارت کا نظریہ کوئی تاریخی سچائی نہیں بلکہ محض ایک افسانہ ہے۔ پاکستان واپسی سے قبل مجھے نیویارک میں ایک امریکی تھنک ٹینک نے گفتگو کےلئے بلایا۔ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی لیکن یہاں بھی اکھنڈ بھارت کا ذکر بار بار آتا رہا۔ امریکہ کے سفارتی حلقوں میں آہستہ آہستہ یہ احساس اجاگر ہو رہا ہے کہ بھارت کی طرف سے چین اور امریکہ کی محاذ آرائی کا فائدہ اٹھا کر اکھنڈ بھارت کے نظریے کو امریکہ میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ صرف پاکستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور افغانستان کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے۔ فی الحال امریکہ میں اس نظریے کو قبولیت نہیں مل رہی لیکن پاکستان کو اس نظریے کے ٹارگٹ ممالک کےساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ نظریہ دنیا کو ایک ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
واپس کریں