دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سابق کھلاڑی کی ذہنی پریشانی؟(گزشتہ سے پیوستہ)
افضال ریحان
افضال ریحان
آج جو لوگ اس نو ع کی خوش فہمی کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ دیکھو کس جرأت کے ساتھ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر کھڑا ہے اور طاقت ور حلقوں کی70 سالہ جمہوری عمل میں مداخلت کو بے نقاب کرنے کا جو فریضہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سرانجام نہیں دے سکی وہ اس اَناپرست کی ضد نے سرانجام دے دیا ہے ۔درویش کو اپنے ایک مربی یاد آ رہے ہیں جو ایک عوامی قائد کے متعلق بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے اس کی توجہ اس کے دوغلے پن کی جانب مبذول کروائی کہ آپ ایک طرف سرخ سویرا کے علمبرداروں کو خوش کرنے کے لئے پاپڑ بیلتے ہیں اور دوسری طرف مسلم بنیاد پرستی کو فروغ دیتے ہیں، ان دونوں طبقات کو آپ نظریاتی طور پر کیسے مطمئن کر پائیں گے ؟ تو بولے کون سی نظریاتی بات؟ میرامطمحٔ نظر توحصولِ اقتدار ہے اور باقی باتیں تومحض سہولت کاری کے لئے ہیں۔

اس نوع کی صورتحال ماقبل بھی اہل نظر ملاحظہ فرما چکے ہیں جب قومی قیادت قومی مفاد میں پینترے بدلتے ذرا عار محسوس نہیں کرتی تھی جب دو قومی نظریہ حصولِ اقتدار کی خواہش میں معاون لگا تو اس کی وکالت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جب اس کے رَد میں چلنا مفاد میں لگا تو پینترا بدلنے میں ذرا عار محسوس نہ کی، قومیت مذہبی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے یا وطنی و نسلی بنیادوں پر جس میں فائدہ نظر آیا، ڈپارٹمنٹل اسٹور سے وہ سودا اٹھا لیا اور اپنی ہٹی پر بیچنا شروع کر دیا ۔ دی پرنس کے میکاولی صاحب تو خواہ مخواہ بدنام ہیں۔

رہ گئی دوسری شکایت کہ اپنی پاپولیریٹی کو آزمائش میں ڈالتے ہوئے اس ہستی نے قاتلانہ حملے کو بلاجواز اور قابلِ مذمت قرار دیا ہے اگرچہ اس کی قلعی تو وضاحتی بیانات سے کھل گئی تھی اور اخبار گارڈین نے واضح کر دیا تھا کہ کوئی لفظ بھی توڑا مروڑا نہیں گیا، مسئلہ پھر وہی کہ یہ مشرق و مغرب میں اپنی نام نہاد پاپولیریٹی کو برقرار رکھنے کے لئے دو چہروں کا مفاد پرستانہ استعمال ہے ۔یہ ممبئی میں پیدا ہونے والے کشمیری دانشور کا کلاس فیلو رہا ہے یا کلب فیلو، اس کے اس کے متعلق فرمودات موجود ہیں جنہیں یہاں پیش کرنا محال ہے سابقہ بیوی نے اپنے قیام لاہور کے دوران ایک تقریب میں مذہبی حوالہ سے دلچسپ باتیں کیں تو پوچھا گیا ماشااللّٰہ آپ کو یہ معلومات کیسےحاصل ہوئیں؟ فوراً بولیں کہ فلاں پروفیسر صاحب سے سیکھی ہیں اس پر انہیں تنبیہ کی گئی کہ بی بی یہاں اس کا نام پروفیسر کہہ کر کبھی نہ لیجئے گا۔بات اس بیچاری مغرب میں پلی بڑھی نے غلط نہیں کی تھی مگر کیا کریں ہماری کنزرویٹو سوسائٹی میں آزادیٔ اظہار کا جو مسئلہ بنا دیا گیا ہے اس عمر قید اور ازلی غلامی میں سوائے سسکیوں، آہوں یا بددعائوں کے اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔ خدا کرے کہ نہ سمجھا کرے کوئی۔

سچ تو یہ ہے کہ اس قومی سرمائے نے اپنی سستی شہرت اور پاپولیریٹی کیلئے کوئی بے اصولی ایسی نہیں ہے جسے روا نہ رکھا ہو، اس ذات مقدس نے اس حوالے سے اگر اپنے دو سابقہ ہمزادوں کو پیچھے نہیں چھوڑا تو پیچھے رہا بھی نہیں۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لیکر ہری پور کی گلیوں تک کوئی مقام نہیں بچا جہاں یہ کھلاڑی حبِ جاہ کے جذبے سے سرشار جنونیت پھیلائو اسکیم میں کوئی کسر چھوڑتا ہو۔

آج ہمارا بہادر کھلاڑی جتنا بھی کنفیوژ ہے مگر دیگر بہت سوں کو اس سے زیادہ کنفیوژن کا شکار بنائے بیٹھا ہے جنہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اپنے ’’محسنوں‘‘ اور ’’مہربانوں‘‘ کے خلاف کون سی الٹی سیدھی زبان استعمال کرنی ہے مگر کمال کی زبان دانی ہے کہ محسن صاحبان خود اختلاف کاشکار ہیں۔ رہ گئے ’’مہربان ‘‘ تو ان کی نکتہ دانی و آفرینی بابا رحمتا کی طرح آج بھی اس کی بلائیں لے رہی ہے جس کا بڑا دوش جمہور کے ادوار کو جاتا ہے ۔بہرحال آج اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہے تو بچ نکلنے کی جتنی مرضی چالیں چل لے مگر زبانی بے لگامی کے ہاتھوں راندہ ٔدرگاہ یا محرومِ تمنا ہی رہےگا، مہربانوں کو محسن سمجھا لیں گے۔

بشکریہ:جنگ
واپس کریں