دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر آئینی ترامیم ۔۔ شفقت راجہ
شفقت  راجہ
شفقت راجہ
الفریڈ سمتھ کا کہنا ہے کہ “ یہ ہمارے لوگوں کا حق ہے کہ وہ کسی بھی قانون اور آئین کے کسی حصے کے خلاف منظم ہو کر کھڑے ہو جائیں جس سے وہ ہمدردی/اتفاق نہیں رکھتے”۔ریاست جموں و کشمیر کی سرزمین اور وسائل پر حق ملکیت کے دعووں کیساتھ بھارت و پاکستان ریاستی مفاد پرست سیاسی قیادت کی معاونت کیساتھ 1947 سے آپسی جھگڑے اور پھر اقوام متحدہ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں جبکہ ریاست اور ریاستی عوام اپنی ہستی، شناخت اور حقوق سے آج تک محروم ہیں۔ اسکے باوجود متنازعہ ریاست جموں و کشمیر چونکہ آج تک کسی ملک کا آئینی حصہ نہیں بن سکی، اسی لئے بھارتی زیر انتظام ریاستی خطے کو بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 اور پاکستانی زیر انتظام خطے کو آئین کے آرٹیکل 257 میں ان متنازعہ خطوں کو منفرد حیثیت حاصل رہی ہے۔ 5 اگست 2019 سے بھارت نے ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے دو یونین ٹیرٹریز میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام ریاستی خطے کی آئینی حیثیت کا باقاعدہ تعین اور اسکے مطابق انتظام و انصرام ہمیشہ ایک مسلہ رہا ہے، اسی لئے پاکستان کی مختلف حکومتوں نے یہاں مختلف ادوار میں مختلف رولز آف بزنس اور آئینی ایکٹ کے تجربات کیے۔ ستر کی دہائی میں جب پاکستان میں پارلیمانی نظام آیا تو یہاں بھی اسی طرز کا آئینی ایکٹ 1974 لایا گیا جس میں آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے ساتھ کشمیرکونسل کے نام سے ایک طاقتور ایوان بالا وزیراعظم پاکستان بحیثیت ممبر و چئیرمین کونسل اور مزید چھ پاکستانی ارکان پارلیمنٹ کی بحثیت ممبران کونسل شمولیت سمیت اس طرح بنایا گیا کہ کونسل کے آئینی و انتظامی اختیارات کے آگے اسمبلی اور حکومت دونوں کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی اور ان اداروں کے درمیان رسہ کشی ہمیشہ چلتی رہی ہے۔ آزاد کشمیر کی سابقہ اسمبلی اور حکومت نے جان جوکھوں ڈالنےکے بعد سابقہ حکومت پاکستان سے تیرہویں ترمیم 2018 کی منظوری حاصل کی جس سے عبوری ایکٹ 1974 کو عبوری آئین 1974 بنایا گیا اور کونسل کو ایڈوائزری رول تک محدود کرتے ہوئے مقامی اسمبلی اور حکومت کو کچھ بااختیار بنانے کی کوشش کی گئی ۔ خطہ آزاد کشمیر کی مقامی مقننہ و انتظامیہ کو تیرہویں ترمیم میں ملنے والے تھوڑے سے اختیار کی سود سمیت واپسی کیلئے آجکل پھر اس عبوری آئین میں مجوزہ ترمیم پر بحث کھل چکی ہے اور ماضی کی طرح آج بھی ہمارے مقامی سیاستکار بحثیت سہولتکار اپنی خدمات سمیت پیش پیش ہیں۔ یہ تحریر عبوری ایکٹ 1974, تیرہویں ترمیم کے بعد عبوری آئین 1974 اور اس میں مجوزہ نئی ترمیم کا تقابلی جائزہ لینے کی محض ایک کوشش ہے۔

آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974 کی ابتدائی تمہید (Preamble) میں آزاد کشمیر اسمبلی اور حکومت کو اس خطے میں بہتر انتظام، سماجی و معاشی ترقی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے بااختیار بنایا گیا ہے، جس میں اصل مقصد اقوام متحدہ کے چارٹر (آرٹیکل 1) میں شامل حق خودارادیت کا حصول ہے اور اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان ( UNCIP) کی قراردادوں کے مطابق شفاف رائے شماری کہ جس میں ریاستی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ آئین میں متوقع و مجوزہ ترمیم میں حق خودارادیت کو UNCIP قراردادوں میں تسلیم کیے جانے سے مشروط کرنے کی تجویز ہے- UNCIP قراردادوں میں تسلیم کیے جانے کا مطلب اگر بھارت یا پاکستان سے الحاق ہے تو اس کیلئے نئی تمہید ضروری نہیں وہ پہلے سے موجود ہے جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا، اور اگر چارٹر کے مطابق لا محدود حق خودارادیت کو پہلے اقوام متحدہ میں تسلیم کیے جانے سے مشروط کیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب تنازعہ کا ازسرنو جائزہ اور ایک نئی قرارداد ہے جس کی بالکل آسان تشریح یہ ہے کہ نہ نومن تیل ہو گا اور نہ ہی رادھا ناچے گی-

آئین کی آرٹیکل 2 میں اصطلاحات کی مختصر تعریف بتائی گئی ہے، جس میں “گورنمنٹ” یعنی حکومت کی تعریف ایکٹ 1974 اور حالیہ آئین 1974 میں حکومت کا مطلب “آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر” ہے۔ جس کے بعد مجوزہ ترمیم میں پھر سے ایکٹ 1974 کی طرح Joint Sitting یعنی مشترکہ اجلاس کا اضافہ متوقع ہے کہ جس میں اسمبلی، کونسل سیکرٹیریٹ کے انچارج وفاقی وزیر اور کونسل کے ممبران شامل ہیں یعنی حکومت سازی کے عمل میں کشمیر کونسل کا کردار ضروری ہے۔ اسمبلی ایکٹ اور کونسل ایکٹ میں آرٹیکل 41 کے کے تحت صدارتی آرڈیننس شامل ہو گا۔ صدارتی انتخاب اور صدارتی آرڈیننس میں کونسل یا چئیرمین کونسل کے جس کردار کو تیرہویں ترمیم میں ختم کیا گیا تھا ا اسے نئی ترمیم میں واپس بحال کیے جانے کی تجویز ہے۔

آرٹیکل 4 بنیادی حقوق سے متعلق ہے جس کے پیراگراف 7 میں ہر باشندہ ریاست کو تنظیم سازی یا تنظیم کا رکن بننے کی آزادی ہے بشرطیکہ آزادکشمیر اور پاکستان کی سالمیت اور اقتدار اعلی/خودمختاری، اخلاقیات یا امن عامہ کیلئے کوئی قانونی پابندی نہ ہو۔

مجوزہ ترمیم میں اقتدار اعلی/خودمختاری کے لفظ کیساتھ پاکستان لکھنا لازم ہو گا۔
ایکٹ 1974 میں اس سیاسی آزادی کو نظریہ الحاق پاکستان کیساتھ مشروط رکھا گیا تھا۔ تیرہویں ترمیم کے بعد اس سیاسی آزادی کو نظریہ الحاق پاکستان کے علاوہ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی سالمیت اور خودمختاری کیساتھ مشروط کیا گیا اور پاکستان کے خلاف سیاسی سرگرمیوں یا پروپیگنڈہ کو جرم قرار دیا گیا مگر مجوزہ ترمیم میں مقتدر حلقوں کی خواہش ہے کہ جہاں بھی لفظ خودمختاری آئے اس کیساتھ پاکستان ضرور لکھا جائے۔

اسی طرح متوقع ترمیم میں تجویز آئی ہے کہ پیراگراف 17 میں لفظ “ریاست “ کی جگہ “آزاد جموں و کشمیر” لکھا جائے۔پیراگراف 17 “ آزاد جموں وکشمیر “ کی کسی بھی سرکاری ملازمت کیلئے اہل باشندہ ریاست کو جنس، نسل، مذہب یا علاقے کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے بشرطیکہ وہ ملازمت مخصوص جنس کیلئے مختص نہ کی گئی ہو یا بشرطیکہ “ ریاست” کی وہ ملازمت کسی نمائندگی سے محروم یعنی پسماندہ طبقے یا علاقے (کے ازالے) کیلئے باقاعدہ مختص نہ کی گئی ہو۔

اس پیراگراف میں ایک جگہ اس خطے کیلئے “آزاد جموں و کشمیر” اور دوسری جگہ لفظ “ ریاست “ استعمال کیا گیا ہے۔
معلوم نہیں لگ بھگ پچاس سال بعد اس قسم کی باریک بینی کی ضرورت اب کیوں آن پڑی ہے کیونکہ یہ احتیاط پہلے برتنی چاہئے تھی۔ ایکٹ 1974 کے نفاذ سے تیرہویں ترمیم کے بعد بھی عبوری آئین کی ابتدائی تمہید میں اس خطے کو “آزاد جموں و کشمیر” جبکہ حکومت کو “آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر” لکھا گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے اکثر سیاستدان لکیر کے فقیر ہیں اور انھیں اسلام آباد کی طرف سے دی گئی لکیر پر چلنا ہے تاہم پاکستان کے مقتدر حلقوں کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ آزادکشمیر میں نافذ ہونے والا ہر آئینی پیکج حکومت پاکستان ترتیب دیکر آزاد کشمیر کی قیادت کو تھماتی رہی اور وہ آنکھیں بند کر کے منظور کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ آزاد کشمیر کی اکثر یت پاکستانی سیاسی جماعتوں کو ہی نمائندگی دیتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر یا اس کیساتھ ریاست اور آزاد حکومت لکھنے سے یہ خطہ کوئی آزاد ریاست نہیں بنتا۔ آج کس کو معلوم نہیں ہے کہ اسلام آباد پر مکمل انحصار کرنے والی یہ آزاد ریاست اور اسکی آزاد حکومت کس حد تک آزاد ہیں، تاہم “ریاست جموں و کشمیر” کی اپنی حیثیت اور شناخت کیساتھ لوکوں کا جذباتی رشتہ ہے اگر آئینی اصطلاحات یا الفاظ اور انکی تشریح میں ایسی کمی بیشی یا ابہام موجود ہے تو ایسی درستگی کیلئے جذبات کو ٹھیس پہنچانا لازم نہیں ہے۔ ریاست اور شناخت (باشندہ ریاست قانون) کیساتھ چھیڑ چھاڑ پر کسی بھی نظریہ یا طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے باشندگان ریاست کی طرف سے ردعمل ضرور آئیگا۔

آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ آئین کی آرٹیکل 5 اور 6 میں صدر کے انتخاب یا عدم اعتماد پر برخاستگی کیلئے اسمبلی ممبران کا اکثریتی ووٹ درکار ہے جبکہ مجوزہ ترمیم میں یہ عمل کونسل اور اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ہو گا۔

آرٹیکل 14 کیلئے ترمیم میں کابینہ کی تعداد %30 سے %50 کرنے کی تجویز ہے۔آرٹیکل 19 میں ترمیم کے ذریعے اسمبلی اور حکومت کے قانون سازی کے دائرہ اختیار میں تھرڈ شیڈول کا پارٹ B بھی شامل ہے جس پر مجوزہ ترمیم میں روک لگائی جائیگی جبکہ کونسل کے بنائے قوانین کی پیروی لازم ہو جائیگی۔

آرٹیکل 21 آزاد جموں و کشمیر کونسل سے متعلق ہے، جسے تیرہویں ترمیم کے ذریعے مشاورتی کردار تک محدود کیا گیا تھا ۔ نئی ترمیم میں کونسل میں وفاق کی طرف سے ممبران میں وزیراعظم پاکستان بطور چئرمین 5 ممبران نامزد کریگا جن میں وفاقی وزرا برائے امور دفاع، امور خارجہ اور امور خزانہ شامل ہونگے۔ کونسل کے محض مشاورتی کردار کو پہلے کی طرح تھرڈ شیڈول میں شامل تمام امور پر قانون سازی کا اختیار اور کونسل اپنے تمام معاملات میں بلا شرکت غیرے بالکل آزاد و خودمختار ادارہ بن جائیگا۔ آزاد کشمیر کی طرف سے ممبران میں صدر (وائس چئیرمین)، وزیراعظم آزاد کشمیر یا اس کا نامزد نمائندہ، اور 6 ممبران کو اسمبلی منتخب کریگی جو قانون سازی میں چند امور تک محدود اور کونسل کے معاملات میں کوئی بھی وزیراعظم پاکستان کی اجازت کے بغیر مداخلت کا مجاز نہیں ہو گا۔

آرٹیکل 33 کے مطابق آئین میں ترمیم کیلئے اسمبلی میں پیش کیا گیا بل دو تہائی اکثریت اور صدر کی منظوری کے بعد قانون بن جائیگا. مجوزہ ترمیم کے مطابق حکومت پاکستان سے پیشگی منظوری کے بغیر آئین میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکے گی۔

آرٹیکل 35 میں ترمیم کے ذریعے کونسل سے منظور شدہ بل کیلئے صدر ریاست کی منظوری لازم نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے وہ قانون بن جائیگا۔

آرٹیکل 41, 43 اور 50 میں کوئی خاص تبدیلی نہیں البتہ کونسل سے مشاورت کو وزیراعظم پاکستان کو منتقل کیا گیا ہے۔ ان آرٹیکلز میں بالترتیب صدارتی آرڈیننس کے نفاذ ، اعلی عدلیہ میں چیف جسٹس تعیناتی اور آڈیٹر جنرل کی تقرری میں صدر ریاست کیلئے وزیراعظم پاکستان سے مشاورت لازم ہو گی اور اسی طرح آرٹیکل 53 میں ایمرجنسی کے نفاذ میں بھی صدر ریاست کیلئے وزیر اعظم پاکستان کی اجازت لازم ہو گی۔ ان تمام امور میں اسمبلی کا کوئی کردار نہیں اور صدر ریاست کو اپنے اختیار کے استعمال کیلئے وزیراعظم پاکستان کی منظوری لازم ہے۔

ایکٹ 1974، آئین 1974 اور مجوزہ ترمیم کے تقابلی جائزہ پر لگتا یہی ہے کہ یہ متوقع ترمیم دراصل تیرہویں ترمیم سے واپسی ہے جس سے اسمبلی اور حکومت آزاد کشمیر کو ملنے والے چند اختیارات پھر سے کونسل اور حکومت پاکستان کو منتقل ہو جائیں گے بلکہ ایکٹ 1974 اپنی سابقہ شکل میں واپس بحال ہو جائیگا۔

تیرہویں ترمیم میں بھی بہت کچھ حاصل نہیں ہوا تھا، کونسل کے اکثر اختیارات چیرمین کونسل یعنی وزیراعظم پاکستان ہی کو منتقل ہوئے تھے تاہم سابقہ اسمبلی اور حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ ٹیکس ریونیو کو اپنے اختیار میں لیتے ہوئے مالی معاملات میں کسی حد تک خود کفالت حاصل کر لی تھی اور کونسل کی اجارہ داری کو ختم کرتے ہوئے اسے مشاورتی کردار تک محدود کر دیا، نئی مجوزہ ترمیم میں کونسل کا وہی ریاست کے اندر ریاست اور حکومت کے اوپر حکومت جیسا کردار بحال ہو جائیگا۔ دفاع، خارجہ اور کرنسی اور ان سے جڑے تمام امور ویسے بھی حکومت پاکستان کے مکمل اختیار میں ہیں مگر اسکے باوجود ان امور سے متعلقہ وفاقی وزرا کا کونسل ممبران بنانا بھی نیا اضافہ ہے یوں وفاقی ممبران پارلیمنٹ اور وفاقی وزرا کے سامنے ہمارے منتخب ممبران کونسل کی کیا حیثیت ہو گی اور قانون سازی سے فیصلہ سازی کے عمل میں انکا کیا کردار ہو سکتا ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ چند سالوں کے دورانیہ کے بعد ہر نئی وفاقی حکومت کے مطابق آئینی و انتظام مہم جوئی کی بجائے وفاق کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اب آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین ناگزیر ہو چکا ہے اور آزاد جموں و کشمیر ایکٹ اور آئین 1974 میں حکومت پاکستان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری تک پاکستان کے زیر انتظام متنازعہ ریاستی خطے میں بیترانتظام و انصرام کیلئے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے یہ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔ انتظام و انصرام کیلئے ایسے آئینی و انتظامی ڈھانچے میں وقت و حالات اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق مزید بہتری لائی جاتی ہے نہ کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے مزید اضطراب پھیلتا ہے، جس کیلئے ابراہم لنکن کا ماننا ہے کہ ہم لوگ ہی کانگریس اور عدالتوں کے اصل مالک جو آئین کو گرانے کیلئے نہیں بلکہ ان لوگوں کوگرانے کیلئے ہیں جو آئین کو بگاڑتے ہیں۔
واپس کریں