عوام کو سوشل کانٹکریکٹ کی تجدید کا مطالبہ کرنا چاہیئے
جنید ملک
یہ بات طے ہے کہ مین سٹریم سیاسی جماعتیں اسٹیبلسمنٹ کے سامنے کھڑی ہونے کی ہمت نہیں رکھتیں اور حالیہ بہران نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی گزشتہ چالیس برسوں کے دوران دونوں جماعتوں نے کبھی بھی کھل کر فوج کی سیاسی دخل اندازی کو چیلنج نہیں کیا۔ عوام کو اپنی طاقت کا مرکز بنانے کی بجائے دونوں جماعتیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم کی منتظر رہی ہیں اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں اقتدار میں آتی رہی ہیں۔ عوام کے سامنے جمہوریت کا راگ الاپتی جبکہ بند کمروں میں جرنیلوں اور ایجنسیوں کے ساتھ معاملات طے کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی جماعت نے فوج یا عدلیہ کو ان کے دائرے میں رکھنے یا ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے کے لیئے کبھی کوئی موثر قانون سازی نہیں کی۔ الٹا عوام کو جمہوری جدوجہد نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر چالیس سال گزار دیئے۔
احتساب یا جوابدہی کا خوف نہ ہونے کے باعث جرنیل اور ایجنسیاں کھل کر سیاسی جوڑ توڑ کرتے رہے ہیں اور انہیں ججوں کی بھرپور معاونت حاصل رہی ہے۔ فوج کا محکمہ جس کا مقصد سرحدوں کا دفاع ہے ملک کے سیاسی نظام پر بری طرح حاوی ہوچکا ہے اور خود کو محکمے کی بجائے ادارہ قرار دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اس بات پر اعتراض اٹھانے کی بجائے خود بھی ادارے ادارے کی گردان کرتے رہتے ہیں گویا انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ فوج وزارت دفاع کے تحت ایک محکمہ نہیں بلکہ خودمختار ادارہ ہے۔ اس محکمے کے اہلکار خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی سمیت تمام تر حکومتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کرتے ہیں، ملکی آئین کی کھلم کھلا خلافورزی کرتے ہیں۔ شہریوں کو لاپتہ اور قتل کرتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست بنا کر بیٹے ہیں۔ دفاعی بجٹ کے نام پر ہر سال ایک قومی آمدن کا ایک تہائی حصہ لے جاتے ہیں اور قوم کو اس کا حساب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ اپنی کاروباری سلطنت چلا رہے ہیں جو دن بدن پھیلتی جا رہی ہے۔ دفاع کے نام پر ملک کی قیمتی زمینوں پر پر قبضے کر رہے ہیں، ہاوسنگ سوسائٹیاں چلا رہے ہیں، پیٹرول پمپ اور شادی ہال چلا رہے ہیں۔ ڈرامے، فلمیں، گانے بنا رہے ہیں۔ لیکن ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
سلسلہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ جرنیلوں نے ذاتی مفادات کی خاطر پڑوسی ممالک سے مسلسل تعلقات خراب رکھے۔ تجارت اور سیاحت کے شعبوں کو تباہ کر دیا۔ معیشت کو پیداوار اور تجارت کی بجائے امداد اور قرضے پر چلنے والی معیشت بنا دیا۔ سماجی معاملات میں دخل اندازی کر کے مزہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ دیا۔ تعلیمی نظام میں دخل اندازی کر کے بچوں کی سوچ خراب کر دی۔ قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے نام پر بڑی بڑی غلطیاں کرتے رہے جن کا خمیازہ عوام نے بھگتا جبکہ خود ہاتھ جھاڑ کر سائڈ پر ہو گئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ گئے۔ لیکن پچھلے چالیس سال سے پارلیمنٹ میں ان کے خلاف قانون سازی تو دور کی بات ہے کبھی سوال تک نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ الٹا پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان جرنیلوں اور ججوں کو مزید مراعات دیتے چلے گئے۔
کیا یہ عوام دشمنی نہیں کہ ایک محکمے کو اس کے دائرے میں لانے کی بجائے اسے ادارے کا درجہ دے دیا جائے، تمام من مانیاں کرنے کے لیئے آزاد چھوڑ دیا جائے اور محکمے کے اہلکاروں کا احتساب کرنے کی بجائے انہیں کو مزید طاقت اور اختیار دے دیئے جائیں؟
میری رائے میں یہ سیاست اور جمہوریت کے نام پر ہونے والی ڈرامے بازی اب بند ہونی چاہیئے اور عوام کو ان سیاسی جماعتوں کے فریب سے نکل کر انفرادی و اجتماعی سطح پر ریاست سے اپنے سوشل کانٹکریکٹ کی تجدید کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں پچھلے چالیس سال سے عوام کو مسلسل دھوکہ اور فریب دے رہی ہیں اور عوام دشمن طاقتوں کی سہولتکاری کر رہی ہیں۔ اگر عوام نے اب بھی اپنے حقوق کے لیئے آواز نہ اٹھائی تو بہت دیر ہو جائے گی۔
واپس کریں