حامدمیر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔عمران خان نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا اور اسی امریکہ کے ایوان نمائندگان نے عمران خان کے موقف کے حق میں قرارداد منظور کرلی ہے۔ 25جون 2024ء کو امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد نمبر 901پیش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں 8فروری 2024ء کو منعقد ہونیوالے انتخابات میں مداخلت اور بے قاعدگیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ قرارداد کے حق میں 368 اور مخالفت میں صرف سات ووٹ سامنے آئے۔ کیا اس قرارداد کی منظوری پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے؟ اس قرارداد پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ وہی امریکی ایوان نمائندگان ہے جس نے حال ہی میں اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کے حق میں ایک قرارداد منظور کی اور جب عالمی عدالت انصاف نے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کرنے پر اسرائیلی وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تو امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی عدالت انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کرلی۔اسی امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے پاکستان میں انتخابات کی تحقیقات کے حق میں قرارداد کی منظوری کو کسی نہ کسی سازشی مفروضے سے جوڑنا بڑا آسان ہے لیکن ان انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ ناصرف یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے بھی آچکا ہے بلکہ پاکستانی اداروں فافین اور پلڈاٹ کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی 8 فروری کے انتخابات میں بےقاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ طویل عرصے کے بعد یورپی یونین کا الیکشن آبزرور گروپ 8فروری کے انتخابات کی مانیٹرنگ کیلئے نہیں آیا اور اسی لئے 2024ء کے انتخابات کو عالمی مبصرین شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔شہباز شریف کی حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے تو بچا لیا لیکن 2024ء کے انتخابات کے متعلق شکوک وشہبات نے انکی سیاسی ساکھ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں اور اسی لئے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔سب جانتے ہیں کہ جب مارچ 2022ء میں عمران خان کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو خان صاحب نے الزام لگایا کہ یہ تحریک عدم اعتماد دراصل ایک امریکی سازش ہے۔پھر خان صاحب نے امریکہ پر سازش کا الزام واپس لے لیا کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ ان کے کچھ دوستوں اور حامیوں کی امریکی ایوان نمائندگان میں شناسائی کے نتیجے میں خان صاحب کی خوشبو کی طرح پذیرائی ہونیوالی ہے۔حکومت پاکستان نے اس پذیرائی کو روکنے کیلئے بہت دبائو ڈالا لیکن امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی حکومت ہار گئی اور اپوزیشن جیت گئی۔
امریکی حکومت کی پالیسیوں سے آپ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن پاکستان کے الیکشن کے بارے میں امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔جب تک اس قرارداد کی روشنی میں 2024ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات نہیں ہونگی پاکستان دبائو میں رہے گا اور یہ دبائو عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ برقرار رکھا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس دبائو سے کیسے نکلا جائے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس دبائو سے نکلنے کیلئے ریاست پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ریاست کی مدد صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کرسکتی ہے ۔سپریم کورٹ میں ایسی درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں جن میں 2024ءکے انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔سپریم کورٹ ان درخواستوں پر سماعت شروع کریگی تو مسیحائی کے دعوے کرنے والے بہت سے ہرجائی بے نقاب ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کہے گی کہ تحقیقات کرنی ہیں تو 2018ء سے شروع کریں۔بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی پھر یہ بات بھی ہو گی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان میں اختلافات کی بنیاد کیا تھی؟جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بھارتی حکومت کے ساتھ جو بیک ڈور چینل کھول رکھا تھا اس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کیا تحفظات تھے؟کچھ عرب ممالک کے سربراہان پاکستان اور اسرائیل کی دوستی میں دلچسپی کیوں لے رہے تھے اور اس سلسلے میں جنرل باجوہ کا کیا کردار تھا ؟کیا عمران خان نے جنرل فیض حمید کےساتھ ملکر باجوہ سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا؟کیا باجوہ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف سازش کی؟کیا عمران خان نے دبائو میں آکر جنرل باجوہ کو ایک اور ایکسٹینشن کی پیشکش کر دی ؟کیا ایک اور ایکسٹینشن کی پیشکش کے بعد باجوہ نے تحریک عدم اعتماد واپس کرانے کی کوشش کی ؟عمران خان نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس وقت کے صدر عارف علوی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی کیوں توڑ دی ؟اس سارے قصے میں سپریم کورٹ کا کردار بھی زیر بحث آئے گا جس نے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا۔ جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو تحریک انصاف نے پہلے قومی اسمبلی سے ا ستعفے دیئے اور پھر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔آئین کے مطابق ان دو صوبوں میں تین ماہ کے اندر انتخابات ہونے تھے ۔تین ماہ میں انتخابات کیوں نہ ہوئے ؟اگست 2023ء میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو گئی انتخابات نومبر 2023ء تک ہونےتھے لیکن بروقت انتخابات کیوں نہ ہوئے ؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو آئین کیوں یاد نہ آیا؟ عمران خان کے ساتھ ان کا عناد سب کو معلوم تھا وہ عمران خان سے متعلقہ مقدمات کی سماعت کیوں کرتے رہے ؟
2024ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوتی ہے تو یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ اگر فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو پھر ریاستی معاملات کیسے چلیں گے؟ یہ معاملات عمران خان چلائیں گے یا جنرل فیض حمید چلائیں گے جو آج بھی پیچھے بیٹھ کر تحریک انصاف کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ نومبر 2022ء میں جنرل فیض حمید نے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کے ذریعہ شہباز شریف سے ملنے کی بہت کوشش کی تاکہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف نہ بن سکیں۔یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو فیض صاحب تحریک انصاف کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے رہے ۔عمران خان اگر آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے حامی ہیں تو انہیں جنرل فیض سے جان چھڑانا ہو گی کیونکہ فیض نے عدلیہ اور میڈیا کےساتھ وہی کیا جو آج ہو رہا ہے۔2024ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں لیکن اس کا فائدہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کو ہونا چاہئے کسی ایسے فرد کو نہیں جو عمران خان کو پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے مشورے دے رہا تھا۔
واپس کریں