دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی عدم استحکام کے نقصانات
مرزا اشتیاق بیگ
مرزا اشتیاق بیگ
سیاسی اور معاشی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار تو دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ملک میں مسلسل جاری سیاسی انتشار ہے جس کے ملکی معیشت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بینکوں کے بلند شرح سود اور بجلی، گیس کے ناقابل برداشت ٹیرف نے بھی صنعتی سیکٹر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جس سے نئی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے جو بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات، گندم کے بحران، آزاد کشمیر میں بجلی اور آٹے کے نرخوں پر احتجاج اور ہڑتال نے بزنس مینوں کو شدید مایوس کیا ہے اور ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر، موجودہ صورتحال ملکی بقا اور سلامتی کیلئے حوصلہ افزا نہیں۔
سیاسی استحکام درحقیقت ایک بلارکاوٹ اور ہموار حکومتی اور سیاسی نظام کو کہتے ہیں جس کیلئے پالیسیوں کا تسلسل اور یقینی صورتحال اشد ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام سے انتشار اور بے یقینی کی ایسی صورتحال پیدا کی ہے جس نے ملکی معیشت کے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تحریک انصاف عدم اعتماد کے بعد سے مسلسل باغیانہ اور دھمکی کی سیاست پر عمل پیرا ہے اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ نگراں حکومت کی سانحہ 9 مئی کے حوالے سے حالیہ رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ PTI کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا لیکن اب اللہ اللہ کرکے ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 75000 انڈیکس کی حد عبور کرلی ہے جو پاکستان پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 9.1 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ساتھ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ پاکستانی روپیہ 278 روپے کی سطح پر مستحکم ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے اور افراط زر میں کمی اور GDP گروتھ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ SIFC سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک سے پاکستان میں خطیر سرمایہ کاری لانے کیلئے کوشاں ہے لیکن سعودی عرب کیلئے PTI کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیا ہے۔ IMF کی 5 رکنی ٹیم پاکستان کیلئے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 4 سے 5 سالہ نئے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے پاکستان پہنچ چکی ہے اور حکومت نے نئے قرض پروگرام کیلئے IMF سے مذاکرات شروع کردیئے ہیں۔ IMF کے مطابق پاکستان کو آنے والے 3 سال میں 9.1 ارب ڈالر کی ایکسٹرنل فنانسنگ کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے IMF نے پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو غیر متوازن قرار دیا ہے جس کیلئے IMF کا نیا پروگرام اشد ضروری ہے۔
پاکستان کا استحکام آئین اور قانون کی حقیقی بالادستی میں پوشیدہ ہے۔ ملک میں طویل المیعاد سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے جن میں جمہوری اداروں، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو خود مختار، آزاد اور مضبوط بنانا ہوگا۔ مقامی حکومتوں کو خود مختار، عوام کی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ملک میں شفافیت، احتساب اور گڈ گورننس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں عدم برداشت کی سیاست کو بدل کر تحمل اور برداشت کا کلچر متعارف کرایا جائے۔ الیکشن کے بعد ملک میں انتخابی اصلاحات متعارف کرائی جائیں تاکہ آئندہ الیکشن مزید آزادانہ اور شفاف ہوسکیں۔ سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ملک میں میثاق معیشت پر متفق ہوں جس پر ہر حکومت دیانتداری سے عمل پیرا ہو۔ موجودہ حالات میں ملک میں مستقبل میں ٹیکس اور توانائی نظام میں اصلاحات اور نقصان میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری اشد ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل باہمی مذاکرات اور پارلیمنٹ میں بحث کرکے حل کرنے ہوں گے، محاذ آرائی اور احتجاج کی سیاست، سوشل میڈیا میں فیک نیوز کے ذریعے قومی اداروں کے امیج کو نقصان پہنچانا ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اس سے ملک دشمن عناصر کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمیں اپنے قومی اداروں کو ملکی مفاد اور بقا و سلامتی کیلئے مضبوط بنانا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ریڈ لائن کا احترام کرنا ہوگا۔ عوام نے سیاسی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں قانون سازی اور اپنے مسائل حل کرنے کیلئے بھیجا ہے اور وہ منتظر ہیں کہ جلد از جلد مہنگائی میں کمی، نئی ملازمتوں کے مواقع، بجلی، گیس، پانی کی بلاتعطل سپلائی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بصورت دیگر مایوسی عوام کا مقدر ہوگی۔ ملک میں معاشی بحالی کیلئے ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں بدامنی، تشدد اور احتجاج کی سیاست چھوڑ کر پارلیمنٹ میں مذاکرات کے ذریعے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور معیشت کی بحالی کیلئے ضروری اصلاحات لائیں جس کیلئے پالیسیوں کا تسلسل اور سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا نہایت ضروری ہے۔
واپس کریں