دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ادارے آمنے سامنے
حفیظ اللہ نیازی
حفیظ اللہ نیازی
ہمارے کرتوتوں کا منطقی انجام یہی کچھ، وطن عزیز مفاداتی ٹولوں کے نرغے میں، ’’رضیہ‘‘ غنڈوں میں پھنس چکی ہے۔ آج حکمت، تدبر، فہم و فراست، دانشمندی چاہیے تھی، مملکت ِ خداداد اِن مدوں میں بانجھ ہے۔ قائدین بجائے اسکے کہ وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کی فکر کرتے، ذات کی تعمیر و ترقی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ ہر چڑھتا سورج قومی مسائل میں اضافہ کر رہا ہے، ڈوبتا سورج نئے بحران کو جنم دیکرجا رہا ہے۔5000سال کی دستاویزی سیاسی تاریخِ بشریات پر نظر ڈالیں یا پچھلے ڈیڑھ ہزار سال کی حرف بحرف دستاویزی تاریخ دیکھیں، قوموں مملکتوں کے عروج و زوال کی کہانی، چند برسوں میں عروج ملتا ہے نہ ہی زوال آتا ہے۔ عروج و زوال کیلئے دہائیوں کی محنت شاقہ اور عمل پیہم درکار ہیں۔ ایک مثال نہیں کہ، سیاسی عدمِ استحکام میں قوم یا مملکت پنپ پائے ہوں۔ بے شمار ایمپائرز، مملکتیں، قومیں بوجہ عدمِ استحکام تحلیل ہو گئیں۔ جن قوموں اور مملکتوں نے عظمت کی دھاک بٹھائی، اُسکی وجہ اُنکا سیاسی استحکام ہی تو تھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کی خان 16اکتوبر 1951ءکو شہادت سے آج تک مملکت سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں ہے۔ 72سال سے سیاسی عدم ِاستحکام مملکت کی چولیں ہلا چُکا۔ مملکت خداداد کی سخت جانی نہ پوچھ، کہ تب سے قائم دائم ہے۔ 1971ءمیں ملک دولخت ہوا، سبق کیا سیکھتے؟، گروؤں نے گُر اور حکمت عملی کی تبدیلی پر اکتفاء کیا۔ مملکت جہاں پہنچ چکی ہے، نقارخانہ میں ذمہ داروں کا تعین ممکن نہیں۔ جھوٹ ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے، سچ کا گاہک ڈھونڈنا جوئے شیر لانا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں عدلیہ نئے ’’پریکٹس اینڈ پروسیجر‘‘ نظام تحت، اسٹیبلشمنٹ کے زیراستعمال رہی۔ ریاست پاکستان کیخلاف جرائم میں عدالتی نظام برابر شریک رہا۔ ان 10 برسوں کا END BENEFICIARY عمران خان، ہر واردات میں شریک رہا۔ آجکل عدلیہ اپنی کمی بیشی کا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط کندھوں پر ڈال رہی ہے۔ 6 ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو 6 ہفتے پہلے ایک خط ارسال کیا، خط میں اسٹیبلشمنٹ خصوصاً خفیہ ادارے کوآڑے ہاتھوں لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس خط پر نوٹس لے رکھا ہے، لائیو کارروائی جاری ہے۔ دوران سماعت ادارے کے کردار پر تُند و تیزبحث سے تاثر عام کہ ’’پچھلے دو سال سے عدالتی نظام مداخلت کی زد میں ہے‘‘۔ مجھے کسی جج کے ’’بطل حریت‘‘ بننے پر اعتراض نہیں، یہ خوش آئند ہے۔ غرض ایسے ’’بطل حریتوں‘‘ سے جوسارا عرصہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر استعمال تھے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ ضرور، عملاً ناممکن کہ آپ نظام میں دہائیوں سے گھسے جن، خصوصاً 2014 سے ریاست سے کھلواڑ کرنیوالولے کرداروں سے صَرف نظر بھی کریں۔ جبکہ پچھلے دوسال کے حساب کتاب میں سربکف نظر آئیں۔ پچھلے دس سال کی مثال ایسے ہی جیسے ایک 10 منزلہ عمارت کی 2014 میں ٹیڑھی بنیاد رکھی جائے۔ نویں دسویں منزل کو تو سیدھا کرنے میں دلچسپی ہو جبکہ آٹھ ٹیڑھی منزلوں سے چشم پوشی رہے۔ حوصلہ رہتا اگر ہمارا عدالتی نظام اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے 10 منزلہ عمارت کو پہلی منزل بلکہ بنیادوں سے ہی سیدھا استوار کرتا۔ خاطر جمع! پچھلے دس سال سے آج موجود نظام کو ابتر بنانے میں عدلیہ، عمران خان برابر کے شریک، تمام مجرموں کی گوشمالی بغیر عدلیہ دیوار سے ٹکر مار کر اپنا سر توڑ سکتی ہے، حاصل حصول خرابی ہی رہنا ہے۔
6 ججز کا خط یقیناً کسی سیاسی یا دنیاوی منفعت کیلئے نہیں بلکہ خالصتاً عدالتی نظام کو بیرونی دباؤ سے نکالنا ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس سنہری موقع کہ پچھلے 10سال کی غلطیوں کو درست کر لے۔ 6ججز کا خط 11پیراگراف پر مشتمل ہے۔ پہلے پیراگراف میں خط لکھنے کی وجہ۔ پیراگراف نمبر 2 تا 5 ، 7 کا متن جسٹس شوکت صدیقی بنام فیڈریشن سے متعلق جو خط کی وجہ وجود ہے۔ پیراگراف نمبر 6عمران خان کیس کا حوالہ اور پیرا گراف نمبر 8 تا 11 عمومی استدعا ہے۔ اس خط میں متعین وجوہات ( GROUNDS) کے 6پیراگراف جسٹس صدیقی کی کہانی۔ جنرل فیض کے دباؤ کا حوالہ خط کا بنیادی نکتہ ہے۔ بقول جسٹس صدیقی جون 2018 میں جنرل فیض نے اُن سے رابطہ کیا کہ ’’عنقریب احتساب عدالت نواز شریف کو سزا سنانے جا رہی ہے، آپ ضمانت نہیں دیں گے، وگرنہ ہماری محنت ضائع جائیگی‘‘۔ جنرل فیض پیشگی نواز شریف کی سزا کا مژدہ سنا رہے تھے۔
دوتاریخیں اور ذہن نشین رکھیں، 6جولائی 2018 نواز شریف کو سزا سنائی گئی اور 25 جولائی 2018 کو RTSالیکشن منعقد ہوئے۔ اس سے پہلے نواز شریف کو سیاست میں تاحیات نااہل قرار دے کر پارٹی چھینی جا چکی تھی۔ مودبانہ گزارش، اگر جسٹس صدیقی کیس اس خط کی بنیاد ہے تو 2014 تا 2018 میں جھانکے بغیر انصاف کے تقاضے ہرگز پورے نہیں ہونگے۔ ایسا تاثر عام کیوں کہ سپریم کورٹ کی دلچسپی محض پچھلے دو سال کے معاملات ہیں۔ نواز شریف کو زور زبردستی سیاست سے باہر رکھنا، عمران خان کی حکومت کا خاتمہ، الیکشن 2018ء اور الیکشن 2024ء میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا ناپ تول کیے بغیر سعی لاحاصل، مزید خرابی کو ہوا ملنی ہے۔
پچھلے 10سال کا احاطہ ہوگا تو’’فاحکم بین الناس بالحق‘‘ کے تقاضے پورے ہونگے۔ کل کا دن اہم، فیصل واوڈا، طلال چوہدری اور کامران ٹیسوری کی رضاکارانہ پریس کانفرنسیں، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک موثر پیغام بھیجنا تھا۔ حاصل کلام اتنا، ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں۔2014 سے سیاسی عدم استحکام کےبوئے بیج، پکی فصل کٹنے کیلئے تیار ہے۔ فیصل واوڈا کی للکار میں پیغام واضح کہ کسی ادارے کو یہ حق نہیں کہ دوسرے ادارے کو بے وُقعت کرے اور خود کو رفعتیں بخشے۔ کیا گھمسان کا رَن پڑنے کو ہے؟ سیٹی بج چکی ہے، میدان سج چُکا ہے، اب تو ہونی نے ہونا ہے۔ ’’عمران خان پارٹی‘‘، نجی محفلوں میں اور سوشل میڈیا پر واشگاف اعلان فرما رہی ہے کہ ’’پاکستان سے پہلے عمران خان، عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘۔ حکومت کا مفاد کہ ریاست کو کیسے بچایا جائے، موجودہ نظام کو کیسے کھینچا جائے۔ خدشہ ہے کہ تدبر، حکمت کی غیر موجودگی مملکت کو کسی ایمرجنسی یا غیر معمولی بحران سے دوچار نہ کر دے۔ کیا وہ بدقسمت تاریک دن سر پر آن کھڑا ہے، جسکی پیشن گوئیاں اور قیاس آرائیاں جاری و ساری تھیں۔ مملکت باقی تو ہم باقی، مملکت فنا توقوم باجماعت فنا۔ رحم! یااللّٰہ رحم!
واپس کریں