دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جامد انسان ، شاک ٹریٹمنٹ اورسرکاری پٹہ
طارق عثمانی
طارق عثمانی
زحمت میں رحمت ایک مشہور مقولہ ہے، یہ مقولہ فطرت کے ایک اصول کو بتاتا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ جب کسی انسان کو زحمت پیش آتی ہے تو اس کی ذہنی صلاحیتیں متحرک ہوتی ہیں وہ زیادہ بہتر طور پر کام کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں میں پڑھ رہا تھا کہ انسان کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگانے کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان کی زندگی میں آنے والی مشکلات شاک ٹریٹمنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ شاک ٹریٹمنٹ انسان کے بند ذہن کو کھولتی ہے وہ جامد انسان کو حرکت میں لاتی ہے اور بعض اوقات تو وہ ایک معمولی انسان کو غیر معمولی انسان بنا دیتی ہے جب آدمی کو کوئی مشکل پیش آئے تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ فطرت نے اس کی زندگی میں وہ شاک ٹریٹمنٹ کا عمل دہرایا ہے جو اس کے فائدے کے لیے ہے، جو اس کو ترقی کی منزل کی طرف لے جانے والا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مشکل کو مشکل نہ سمجھے بلکہ اس کو چیلنج سمجھے۔ مشکل کا لفظ بے ہمتی پیدا کرتا ہے مگر جب مشکل کو چیلنج کے طور پر لیا جائے تو وہی چیز اس کا حوصلہ بڑھانے والی بن جاتی ہے۔ لوگوں کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی بحیثیت قوم یا معاشرہ مشکلات کو چیلنج کے طور پر لینا چاہیے۔ دل کو شکستہ کرنے کی بجائے صورت حال کا جائزہ لے کر دوبارہ سے اپنے درست عمل کو منصوبہ بند کرنا چاہیے۔ انسان کو ذاتی یا اجتماعی حیثیت میں مشکل حالات کے اندر سے نئے امکانات کو تلاش کرنا چاہیے۔ نادان لوگوں کے لیے مشکل ایک رکاوٹ ہے مگر دانش مندوں کے لیے مشکل ہی ترقی کا زینہ ہے۔
گزرے سال بدھ 28 جولائی 2021 کی صبح جب میں سو کر اٹھا تو اسلام آباد میں شدید ترین طوفانی بارش تھی جس نے آٹھ نو بجے تک جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی تھی، سڑکوں پر گاڑیاں سیلابی ریلوں میں تنکوں کی طرح بہہ رہی تھیں، لوگوں کے گھروں میں بارش کے پانی نے داخل ہو کر ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیا تھا، گھروں کے نیچے بنے بیسمنٹ پانی سے بھر چکے تھے۔ سیکٹر ای-الیون ٹو کی گلی نمبر 3 کے بیسمنٹ میں ایک ماں اپنے سات سالہ بچے کے ساتھ اپنے ہی گھر کے اندر پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو چکی تھی، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی رک چکی تھی، اسلام آباد کے تمام نشیبی علاقے زیر آب آ چکے تھے، گلیاں سڑکیں سیلابی پانی سے ندی نالوں کا منظر پیش کررہی تھیں، برساتی نالوں کے کنارے تجاوز کرکے بنائے گئے غریبوں کے کئی کچے گھروندے ڈھہ گئے تھے اور ملبے کی زد میں آکر کئی لوگ زخمی بھی ہوئے تھے ۔
یہی صورتحال جڑواں شہر راولپنڈی کی تھی جہاں شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والے نالہ لئی میں شدید طغیانی آ چکی تھی، انتظامیہ اور شہر کی پوری سرکاری مشینری نالہ لئی کے کنارے بسنے والوں کو الرٹ کرنے کے لیے سائرن بجا رہی تھی کٹاریاں پل کے مقام پر نالہ لئی میں پانی کی سطح 21 فٹ کی بلندی کو چھو رہی تھی۔ فوجی دستے اور دیگر تمام متعلقہ ادارے سول انتظامیہ کی مدد کو پہنچ چکے تھے جو خطرے میں گھرے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں مصروف تھے۔ اسلام آباد کے بارشی پانی کا رخ اب راولپنڈی کی طرف تھا جس سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلوں سے تباہی کا خدشہ تھا۔ ٹیلی ویژن کی سکرینیں لمحہ بہ لمحہ سیلابی صورتحال سے لوگوں کو باخبر رکھے ہوئے تھیں۔ اس ساری افراتفری کی سیلابی صورتحال میں اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے اور سول انتظامیہ کے سرکاری ذمہ داران سیکٹر ای-الیون میں واقع پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان کی طرف سے نکاسی آب کی ناقص منصوبہ بندی اور سوسائٹیز کے مالکان کی جانب سے ندی نالوں کی زمین پر قبضہ کر کے انھیں پلاٹ بنا کر اس پر گھر تعمیر کروانے کے الزامات عائد کر رہے تھے، الزامات وہی سرکاری افسر عائد کر رہے تھے جن کی خود یہ ذمہ داری تھی کہ وہ کسی بھی پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان کو سوسائٹی رولز پر کاربند رہنے پر مکمل عمل درآمد کرواتے اور کسی ندی نالے پر ناجائز قبضہ نہ ہونے دیتے ، وہی سرکاری مشینری سوسائٹی مالکان کو ذمہ دار ٹہرا رہی تھی جس نے خود کروڑوں کی رشوت لے کر ندی نالوں پر یہ ناجائز قبضے کروائے تھے۔
دوسری طرف پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے انتظامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے پراجیکٹس میں شدید بارشی پانی کی نکاسی کی پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی چونکہ بادل پھٹ گئے تھے اور اچانک آسمان سے بہت بڑی تعداد میں گرنے والے پانی نے سیلابی صورتحال پیدا کر دی تھی اور یہ خدائی آفت تھی اس میں انسانی غفلت یا کوتاہی نہیں تھی۔سرکاری موسمیات کے ادارے نے بادلوں کے پھٹنے کی تردید کی تھی،
اس سانحہ کا ایک سال گزرنے والا ہے چیف کمشنر اور چیرمین سی ڈی اے عامر علی احمد آج بھی پورے جمال سے اپنے ان دونوں سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں لیکن اس پورے سال میں نہ کسی کو ذمہ دار ٹہرایا گیا نہ کوئی سزا جزا ہوئی ، دراصل پچھلے سال اسلام آباد میں شدید ترین طوفانی بارش یا بادلوں کا پھٹ جانا دراصل فطرت کی طرف سے ہم انسانوں کے لیے شاک ٹریٹمنٹ تھا تاکہ ہم سوئے ہوئے جاگ سکیں۔ یہ ہمارے لئے قدرت کا اشارہ تھا کہ ہم اپنے عمل کی از سر نو صحیح منصوبہ بندی کریں اور اپنے معاملات کی دوبارہ سے Re-Assessment کرسکیں لیکن ہم ہوس زر میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہم فطرت کے آگے بھی بندھ باندھنے کی ناکام کوششوں میں لگے رہتے ہیں ، سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ناجائز طریقوں سے پیسے بٹورنے پر لگے ہوئے ہیں دیکھا جائے توراولپنڈی اور اسلام آباد کی کم وبیش ہرہاؤسنگ سوسائٹی برساتی نالوں کے کناروں کے علاوہ قدرتی آبی گذرگاہوں پر ناجائز طور پر قبضے کر کے ہی آباد کی گئی ہیں ، دریائے سواں اور اس سے ملحقہ برساتی گزر گاہوں کا تقریباً اسی فیصد حصہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اندر ضم ہو چکا ہے یا دریا پر ہی سوسائٹی کھڑی کرکے پلاٹ لوگوں کو بیچ دیے گئے ہیں پچھلے 30,35 سالوں میں آج کے بڑے بڑے ٹاؤن پلانرز، قد کاٹھ والے سیاستدانوں، مقامی رہنمائی کے دعویداروں ، اور سرکار چلانے والے سرکاری پرزوں نے باہم مل کر قدرتی آبی گذرگاہوں کو بیچ کر اربوں کھربوں روپیہ تو کما لیاہے اور اب بھی دن رات ذاتی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی نہ ختم ہونے والی غیر فطری انسانی خواہشات اور ہوس نے ایک ایسے مستقل انسانی المیہ کو جنم دے دیا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ مستقبل میں انہی انسانی آبادیوں پر منڈلاتا رہے گا۔ اور خدانخواستہ کسی بھی بڑی تباہی کاذمہ داران جڑواں شہروں میں تعینات ایک ایک ڈپٹی کمشنر ،کمشنر، سی ڈی اے کے چیرمین ، پلاننگ ونگ میں تعینات ایک ایک ممبر اور وہ سارے سرکاری و غیر سرکاری اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والے کرتا دھرتا ہوں گے جنہوں نے عوام الناس کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ،قدرتی آفات انسان کو سبق دیتی ہیں کہ وہ معتدل ذہن کے تحت سوچے اور اپنی اصلاح کرے۔ فطرت کے ہر معاملے میں انسان کے لیے ایک سبق ہے انسان کو چاہیے کہ وہ غور کرے، سمجھے اور صحیح پر عمل کرے۔ گزشتہ سال کی سیلابی صورتحال بھی قدرت کا انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ تھا ، خدا ان لوگوں کو اب بھی سبق دے رہا ہے جنہوں نے یہ ساری تباہی و بربادی کی، یہ ان لوگوں کے لیے خداکی وارننگ تھی جنہوں نے دو بہت بڑے آبی ذخیروں راول ڈیم اور سمبلی ڈیم کے پانی کی نکاسی کی قدرتی آبی گذرگاہوں پر قبضہ کرکے وہاں انسانی بستیاں بسا دی ہیں ، خدا آج بھی اپنی فطرت سے انسانوں کو صحیح اور درست سمت کا بتا رہا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرتے ہوئے قدرتی آبی گذرگاہوں کا راستہ کھولے فطرت کے اصولوں سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں ، فطرت سے لڑنا خدا سے لڑنا ہے خدا نے گزرے سال ایک بار پھر ہمیں موقع دیا تھا کہ ہم حقائق کو جانیں، اپنی ہی پیدا کردہ دشواریوں اور مسائل کا حل تلاش کریں ، مشکل اور رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے خدا نے انسان کو عقل عطا کی ہے وہ اپنی دانشمندی سے ترقی کا زینہ توطے کرے نہ کہ بند ذہن سے خدائی کاموں میں رکاوٹ بنے۔ خدا کے اس شاک ٹریٹمنٹ کو مشکل کے طور پر نہیں اپنی اصلاح اور سبق کے طورپر لے ۔
انسان کے اندر فطری طور پر اتنے زیادہ امکانات رکھے گئے ہیں جو حادثات سے کبھی ختم نہیں ہوتے ہر حادثے کے بعد انسان کے لیے ایک نیا موقع باقی رہتا ہے۔ ہر حادثے کے بعد یہ ممکن ہے کہ آدمی بقیہ امکانات کو استعمال کر کے از سر نو اپنی زندگی کی تعمیر کر سکے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک پرندہ ایک شاخ ٹوٹنے کے بعد دوسری شاخ پر اپنا آشیانہ بنا لے اسلام آباد کے چیف کمشنر عامر علی احمد جو پچھلے چار سالوں چیرمین سی ڈی اے بھی ہیں وہ ممبر اسٹیٹس اور ممبر ایڈمن بھی رہے اور چیرمین معروف افضل کی تعیناتی کے دوران اصل چیرمین بھی وہی تھے وہ دارالحکومت اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور فل ڈپٹی کمشنر بھی رہے یوں لگتا ہے کہ پچھلے لگ بھگ دس سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ، مسلم لیگ (ن ) تحریک انصاف اور اب پھر مسلم لیگ (ن ) کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت انہیں سرکاری پٹے پر دے رکھا ہے اور ان کے ان دس سالوں میں کوئی آبی قدرتی گزرگاہ ایسی نہیں جس پر ہاوسنگ سوسائٹیوں نے ناجائر قبضے کر کے بیچ نہ دی ہوں ۔ سانحہ ای الیون کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے
اس سال بھی محکمہ موسمیات نے شدید بارشوں کی پیشین گوئی کی ہے خدا راہ بچی گھچی آبی گزر گاہوں اور ندی نالوں کے رستے کھولنے کی کوشش کریں اور کسی بڑے انسانی المیہ یا حادثے کا انتظار نہ کریں اگر خدا نے تمہیں اختیار سے نوازا ہے تو انسانوں کے لیے رحمت بنیں، انہیں زحمت مت دیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور فطرت سے سبق سیکھیں بند نہ باندھیں رستہ دیں اور اپنی وہ ذمہ داریاں نبھائیں جو آپ کو سرکاری سطح پر سونپی گئی ہیں۔
واپس کریں