دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خوف۔محمد حنیف
محمد حنیف
محمد حنیف
پتا نہیں عمران خان صاحب کس کو ڈرا رہے ہیں کہ پاکستان تین ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

پتا نہیں وہ کون لوگ ہیں جو خان صاحب کے اس بیان پر طیش میں ہیں کہ فوج تباہ ہو گی، پھر ہم سے ہمارے جوہری ہتھیار چھینے جائیں گے اور اس کے بعد ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔

یہ شاید سب وہی لوگ ہیں جو بچپن سے ہمیں بتاتے آئے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا، فوج اس کی سلامتی کی ضامن ہے، اگر اسلام نہ ہوتا، اگر فوج نہ ہوتی تو اس ملک کے ٹکڑے ہو جاتے۔

یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اسلام بھی قائم و دائم ہے، فوج کا سایہ بھی ہمارے سر پر ہمیشہ سے سلامت ہے، لیکن اس کے باوجود ملک کے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں، بلکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا بڑا حصہ اپنے چھوٹے بھائی سے آزادی حاصل کر کے نسبتاً سکون کی زندگی گزار رہا ہے۔

لیکن ہم نے اپنی تاریخ کی کتابوں سے بنگلہ دیش کا نام و نشان تک مٹا دیا ہے۔ ہائی سکول کے ذہین طلبہ سے پوچھو تو وہ بھی حیران ہو کر پوچھتے ہیں واقعی بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا؟ اگر کوئی پوچھ بیٹھے تو ہم سازش سازش کا رونا رو کر اُسے چپ کروا دیتے ہیں۔

اگر ہم نے ٹکڑے ہونے والی بات کو ماننا ہی نہیں تو تین کیا تین سو ٹکڑے بھی ہو جائیں تو ہمارے خوابوں کے پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔

ویسے بھی جو اشرافیہ ریاست کے نام پر دنیا سے ملے ٹکڑوں پر جینے کی عادی ہے اسے ملک کے ٹکڑے ہونے کی کیا فکر ہو گی۔ اگر ہوتی تو اُسے نظر آتا کہ وطن کے تین سے زیادہ ٹکڑے تو پہلے سے موجود ہیں۔

بلوچستان میں کئی سفید پوش لوگ ایسے ہیں جو اپنی ساری عمر کی جمع پونجی اکٹھی کر کے اپنی اولاد کو پڑھنے کے لیے پاکستان کے دوسرے حصوں میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں۔ بہتر تعلیم ایک ثانوی مقصد ہے، وہ اپنے بچوں کو لاہور، کراچی و اسلام آباد اس لیے بھیجتے ہیں کہ اُنھیں یقین سا ہو چلا ہے کہ اگر اُن کا بچہ ہائی سکول کے بعد بلوچستان کے کسی تعلیمی ادارے میں پڑھا، تو چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، ایک دن غائب کر دیا جائے گا۔ پھر وہ باقی عمر اس کی مسخ شدہ لاش کا انتظار کریں گے اور مسنگ پرسنز کے کیمپ میں اُن کی تصویریں اٹھا کر بیٹھیں گے۔
لیکن اب وہ سیانے بلوچ والدین بھی جنھوں نے اپنے بچے پاکستان کے نسبتاً محفوظ ٹکڑوں میں بھیجے تھے، پچھتا رہے ہیں کہ بچوں پر پیسہ بھی خرچ کیا، جدائی بھی برداشت کی، لیکن ان کے بچے لاہور اور اسلام آباد سے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

ان کی زندگی تو پہلے ہی ٹکڑوں میں بسر ہو رہی ہے، اُنھیں کتنے ٹکڑوں سے ڈراؤ گے؟

عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے بڑی دردمندی سے کہا کرتے تھے کہ جب وہ وزیرِ اعظم بنیں گے تو کسی شہری کو غائب نہیں کیا جائے گا۔ ان کے دورِ حکومت میں کچھ غائب شدہ افراد رہا بھی کیے گئے (یہ کبھی نہیں پوچھا گیا کہ اغوا کار کون تھے)، لیکن اس سے دگنی تعداد میں اور لوگ اٹھا لیے گئے، اور ان میں سے کئی لوگ عمران خان کی حکومت کی ناک کے عین نیچے یعنی اسلام آباد میں۔

شہباز شریف نے کوئی زیادہ دردمندی دکھانے کا تکلف بھی نہیں کیا اور صرف یہ کہہ دیا کہ وہ اس انسانی مسئلے پر اہلِ اختیار سے بات کریں گے۔

عمران خان اقتدار کے دوران کہتے تھے کہ وہ مکمل بااختیار ہیں، اب کہتے ہیں کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ شہباز شریف کے رُفقا بھی ابتدائی دنوں میں یہی کہتے پائے گئے کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
قوم تو یہی سمجھے گی کہ ہمارے تمام منتخب وزرائے اعظم کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں اور صرف اسی وقت کھولے جاتے ہیں جب اُن کے ہاتھ میں کشکول دے کر دنیا میں بھیجنا ہوتا ہے کہ جاؤ کچھ مال پانی لے کر آؤ تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔

عمران خان کے مخالفین یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اُن کے ٹکڑے ٹکڑے والے بیان کے بعد اُن کی زبان بندی کے لیے ریاست کچھ کرے۔ ملک کے پہلے دو ٹکڑے بھی زبان بندیوں کی وجہ سے ہوئے تھے۔ خان صاحب کا دل دکھی ہے، اُنھیں بولنے دیا جائے۔ اگر اُن کی باتیں پسند نہیں تو گاؤں کی اُس بوڑھی عورت والا قصہ یاد کیا جائے جس کا مرغا صبح ہی صبح اذانیں دے کر پورے گاؤں کو جگا دیتا تھا۔

مائی گاؤں والوں سے ناراض ہوئی تو اپنا مرغا بغل میں دبا کر گاؤں چھوڑ چلی، اس دھمکی کے ساتھ کہ دیکھتی ہوں اب اس گاؤں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔بشکریہ: بی بی سی
واپس کریں