دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آخر کیوں؟ ایک دیوتا، کروڑں پجاری
رؤف کلاسرا
رؤف کلاسرا
عمران خان کو ان کے ایڈوائزز بڑی محنت ساتھ وزیراعظم ہاوس سے اٹھا کر سڑک پر لے گئے ہیں۔ میجر عامر کبھی موڈ میں ہوں تو وہ پوری کہانی سناتے ہیں کہ کیسے نواز شریف نے پوری ایمانداری کے ساتھ محنت کر کے اپنی کرسی پر عمران خان کو جا کر بٹھایا تھا۔ نواز شریف کو بھی سب نے سمجھایا تھا۔ میجر عامر نے تو قران پاک کی آیتیں بھی پڑھ کر سنا دیں لیکن نواز شریف کا دل نہ پسیچا اور انہوں نے وہی کام کیا جس سے سب منع کرتے تھے۔
نتیجہ کیا نکلا؟ نواز شریف سیدھے وزیراعظم ہاوس سے بیٹی سمیت جیل جا پہنچے اور راستے میں ہر ایک ملنے والے سے پوچھنا نہیں بھولتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟
اب عمران خان بھی وہی سوال ہر آتے جاتے سے پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟
جو محنت نوازشریف نے عمران خان کو اپنے تخت پر بٹھانے کے لیے کی تھی وہی محنت عمران خان نے کی اور دوبارہ شریفوں کو اقتدار میں لے آئے۔
عمران خان اور نواز شریف میں بہت ساری باتین مشترکہ ملیں گی۔
طاقت انسان میں تکبر اور غرور پیدا کر دیتی ہے۔ وہ اپنے محسنوں کو بھول جاتا ہے اور خوشامدی اسے گھیر لیتے ہیں۔ ایسا انسان خود کو بہت چالاک اور ہوشیار سمجھتا ہے۔ وہ خود کو یقین دلا بیٹھتا ہے وہ ایک دیوتا ہے جس کی پوجا ہر انسان پر فرض ہے۔ اس کا کام لوگوں کو استمعال کرنا اور لاشوں کے انبار لگا کر آگے بڑھ جانا ہے۔وہ خود کو اس بات پر داد بھی دیتے ہیں۔
عمران خان کو سن رہا تھا۔ بتا رہے تھے کہ پاکستانی میڈیا کرپٹ ہے۔انہیں ایک اینکر نے بتایا ان کے خلاف میڈیا میں پیسہ چل رہا ہے۔ اس اینکر کو بھی پیسوں کی آفر ہوئی ہے۔ عمران خان کی ایک خوبی ہے ان کے کان میں جو بھی کوئی بات کہہ دے وہ اس پر یقین کر کے دہرا دیتے ہیں۔ بعد میں وہ غلط نکل آئے تو بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ سیاسی بیان تھا۔
مجھے ان کا یہ بیان سن کر ہنسی آئی کہ میڈیا کرپٹ ہے۔ ساڑھے تین سال پہلے تک وہ اسی میڈیا کو روزانہ بلا کر خود انٹرویو دیتے تھے۔ بلکہ کئی اینکرز کو تو خود سے کئی دفعہ درخواستیں کی گئیں کہ انٹرویو کریں۔ کتنے کالم نگار اور صحافی ان کے رومانس میں رہے۔ کئی کا خیال تھا وہ سادہ ہے، بھولا ہے اسے دینا کا کچھ پتہ نہیں۔ اگر اس کی راہنمائی نہ کی گئی تو چالاک اور ہوشیار لوگ اسے کہیں لوٹ ہی نہ لیں۔ سب نے ٹھیکہ اٹھایا کہ عمران خان کا امیج بنانا ہے۔ آج وہی عمران خان جس بارے کہتے تھے اسے کچھ نہیں پتہ، وہ آج کہتا ہے اس سب پتہ ہے اور وہ سب جانتا ہے۔
آج وہی جو اسے سمجھانے جاتے تھے ان کے بارے خان کی رائے ہے وہ کرپٹ ہیں۔ اکیلا ایماندار کپتان بچ گیا ہے جس نے دوبئی سعودی تحائف تک خاموشی سے بیچ دیے۔
اس قوم کو بھی تو داد دیں کہ عمران خان کی کہی ہوئی ہر بات غلط نکلی کہ جو وعدے کیے سب جھوٹے نکلے۔ہر بات پر ان کا کلپ نکلا لیکن قوم ابھی بھی اعتبار کرنے کو تیار ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ قوم جھوٹے بندے کو قبول کرسکتی ہے لیکن ان کا خیال ہے زرداری اور شریف جنہوں نے کرپشن کی ہے انہیں معافی نہیں ہے۔یوں اس دفعہ مقابلہ جھوٹے اور کرپٹ کے درمیان ہے۔
کبھی سوچتا ہوں واقعی یہ دنیا ہوشیار اور چالاک لوگوں کی ہےجو دوسروں کو چونا لگا سکیں۔
ان تین سالوں میں خان کتنا بدل گیا ہے۔ اب خان صاحب کو میڈیا برا لگتا ہے۔ اب انہیں کسی کالم نگار کے کالموں یا رپورٹرز کی خبروں یا ٹی وی چینلز کے اینکروں یا ٹی وی میڈیا ہاوسز کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ خود کہتے ہیں میں اب ٹی وی نہیں دیکھتا، میں اخبار نہیں پڑھتا۔ میں صرف سوشل میڈیا چیک کرتا ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں اب کسی اینکر یا میڈیا کی ضرورت نہیں کیونکہ اب سوشل میڈیا نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب آخبارات اور ٹی وی پرانے ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہ اب میڈیا اور اینکرز کو کرپٹ بھی کہتے ہیں۔ انہیں لفافہ بھی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کو فارن فنڈنگ ہورہی ہے۔ یہ بیرونی قوتوں کے اشارے پر چلتا ہے۔ ان کی باتوں سے آپ کو میڈیا کے خلاف نفرت واضح نظر آتی ہے جسے وہ چھپاتے بھی نہیں۔
ویسے خان صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر میڈیا کرپٹ ہے یا پیسے لے کر وہ سیاستدانوں کا امیج خراب یا اچھا کرتا ہے تو پھر عمران خان نے ان برسوں میں کتنے اینکرز، صحافیوں اور کالم نگاروں کو پیسہ کھلایا یا کرپٹ کیا؟
عمران خان بارے تو مشہور ہے کہ وہ کسی کو چائے تک نہیں پوچھتے اور اس بات پر ان کا فین کلب انہیں داد دیتا ہے۔ وہ معاشرہ جہاں کسی مہمان کی خدمت ایک روایت ہے اور شان سمجھی جاتی ہے وہاں اس بات کو فخر بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بندہ کسی کو چائے تک نہیں پلاتا۔ انہی اینکرز اور صحافیوں نے ہی عمران خان کے خلاف چلنے والی کمپین کا مقابلہ کیا، انہی ٹی وی چینلز پر نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔ ان کے ایک سو چھبیس دن تک دھرنے لائیو دکھائے۔ آج جب خان صاحب کی اپنی الگ دنیا قائم ہوگئی ہے وہ وزیراعظم بن گئے ہیں اور واپس اپوزیشن میں بھی آگئے ہیں تو انہیں وہی میڈیا کرپٹ لگتا ہے۔ اب انہیں لگتا ہے کہ میڈیا کا جتنا استمعال انہوں نے کرنا تھا کر لیا۔ اب سوشل میڈیا ہی نئی دنیا ہے۔ اب وہ سوشل میڈیا کی ٹیمیں بنا رہے ہیں۔ جو سارا دن ان کے مخالفین کو گالیاں دیں۔ میڈیا اینکرز کو گالیاں دیں اور انہیں لفافہ صحافی کہتے رہیں۔
اگرچہ وہ مین اسٹریم میڈیا کے اینکرز کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن پھنس جائیں تو وہ ان سب کو بلا کر مدد بھی لیتے ہیں۔ آپنے اقتدار کی وزیراعظم ہاوس میں آخری شام انہوں نے ایسے ہی اینکرز کو ہی بلایا ہوا تھا اور اپنی بے بسی کا رونا رو رہے تھے۔
ایک اینکر جو اس میٹنگ میں شریک تھے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو ان کے قریبی لوگ کچھ بھی نہیں بتارہے تھے۔انہیں دنیا کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا اس وقت عدالت کھل چکی تھی ۔ یا پھر انہیں کسی ایڈوائز نے نہیں بتایا تھا کہ سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کی درخواست مسترد کر دی تھی یا پھر پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں کی وین پہنچ گئی تھی کہ اگر عدالت نے ان پر توہین عدالت لگا دی تو وزیراعظم سمیت سب وزیر اور سپیکر بھی گرفتار ہوں گے۔ یہ سب باتیں انہیں وہاں موجود صحافیوں نے بتائیں۔
وہ وزیراعظم جو سوشل میڈیا پر چلے گا پھر اس کے وزیروں اور مشیروں کے لیے اسے بے خبر رکھ کر استمعال کرنا آسان ہو جائے گا۔
اگر وزیراعظم بھی ان سب اہم باتوں سے بے خبر رکھا جائے گا تو پھر یہی کچھ ہوگا۔
سابق وزیراعظم اور ان کے وزیر ایک ماہ تک ہمیں یہ بتاتے رہے کہ یہ سب امریکن سازش تھی اور انہیں ہٹا دیا گیا۔ اب فواد چوہدری نے اس سارے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ نئیں اگر فوج سے لڑائی نہ ہوتی تو حکومت نہ جاتی۔ مطلب امریکن سازش محض ایک بہانہ تھا ورنہ اصل لڑائی تو پاکستان کے اندر لڑی گئی تھی۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کئی وجوہات تھیں جو دھیرے دھیرے بڑے اختلافات میں بدلتی چلی گئیں۔
بات وہی ہے کہ وزیراعظم ہاوس میں پہنچ کر سب بھول جاتے ہیں وہ یہاں تک کس کی حمایت کی وجہ سے پہنچے تھے۔ وہ خود کو اصلی عوامی نمائندہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے اختیارات انہی قوتوں اور لوگوں پر ہی استعمال کرنے لگتے ہیں جو انہیں پاور میں لائے تھے۔ انجام ہمارے سامنے ہے۔
باقی چھوڑیں خان صاحب کی اس بات کو انجوائے کریں جو میڈیا، اینکرز اور کالم نگار دن رات بائیس برس تک عمران خان کی تمام تر خامیوں کے انہیں فرشتہ ثابت کرتے رہے، ان کے رومانس میں خان کی شخصیت کی دیومالائی کہانیاں سناتے رہے اور عوام کو قائل کیا وہ ایماندار بندے ہیں انہیں اپنا بادشاہ بنا لیں، آج انہی کے بارے خان صاحب کا فرمانا ہے کہ وہ اینکر، کالم نگار، چینلز اور میڈیا ہاوسز سب کرپٹ ہیں۔
اب اچانک سوشل میڈیا والے نیک اور اچھے ہو گئے ہیں۔ اب وہ سب خان کے لیے استمعال ہوں گے جیسے کبھی اخبارات، اینکرز، چینلز اور کالم نگار ہوتے تھے جنہیں بقول خان صاحب اب وہ نہ دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں۔ نیا زمانہ اور نئی سوشل میڈیا کی ٹیم استمعال ہوگی ۔ خان صاحب نے اچھے سیاستدان کی طرح عمر بھر دوسروں کو استمعال ہی کرنا ہے۔ کبھی کسی کا شکر گزار نہیں ہونا کیونکہ وہ ایک دیوتا ہیں اور باقی کروڑں ان کے بچاری۔
واپس کریں