منظر الحق
دہلی کی گلیوں میں ایک پرانا مقولہ آج بھی مونچھوں پر تاؤ دے کر ٹہلتا پھرتا ہے کہ صاحب جس کی عزت ہوتی ہے بےعزتی بھی اُسی کی ہوتی ہے اب یہ اور بات ہے کہ آج کل عزت کا جنازہ کندھوں پر نہیں وائرل کلپس پر نکلتا ہے اور بےعزتی کفن اوڑھنے سے پہلے ہی ٹرینڈ بن جاتی ہے خیر، قصہ مختصر یہ کہ جہاں عزت کی بنیاد مضبوط ہو وہیں طنز کے تیر بھی ٹھیک نشانے پر لگتے ہیں خالی ڈبّے پر کون ڈنڈا مارے بھلا
جس کا جتنا بڑا قد اس کا اتنا ہی بڑا سایہ اب جس کے سر پر عزت کا ہما بیٹھا ہو اسے ہی تو ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی کوا آکر چونچ نہ مار دے جن کے پاس اپنی کوئی ساکھ نہیں وہ تو میاں آزاد منش لوگ ہیں ان کا کوئی کیا بگاڑے گا
اے بندۂ خاکی یاد رکھ جہاں عزت کی چوکھٹ چمکتی ہے وہیں بےعزتی کی کنکریاں بھی اسی دروازے پر پڑی ہوتی ہیں
جس گھر میں دیا جلتا ہے اسی میں پتنگے بھی پڑتے ہیں عزت اور بےعزتی دونوں اُسی کی ہوتی ہیں جس کے پاس کچھ ہوتا ہے یا تو روپے پیسے کی دھمک یا عہدے کی چمک یا پھر شہرت کی چٹخارات ورنہ جس گھر میں کوئی پوچھنے والا نہ ہو اُس کی تو بےعزتی کو بھی کوئی پوچھتا ہے کیا؟ وہ تو بےناموس ہی رہتا ہے
ہوئے رسوا تو وہ سمجھے کہ قد ہی گھٹ گیا اپنا
خبر کیا تھی کہ سورج جب ڈھلے تو عکس بڑھتا ہے
جس کی عزت ہوتی ہے وہ تو میاں کانچ کی ہنڈیا لے کر چلتا ہے ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹھیکرا ہو گئے اور جس کے پاس مٹی کا کٹورا ہو اسے ٹوٹنے کا غم کیسا؟ وہ تو ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا والی بات ہوئی
ناک تو اسی کی کٹے گی جس کی پہلے سے موجود ہو اب جس کی ناک ہی چپٹی ہو یا سرے سے غائب ہو اس پر چاقو چلے یا آرا اسے کیا فرق پڑتا ہے؟
بڑے بوڑھے کہتے ہیں بھئی ان کی آنکھوں کا پانی مر گیا ہے اب جس کا پانی پہلے ہی سوکھ کر پاپڑ ہو گیا ہو اسے بے عزتی کی دھوپ کیا جلائے گی؟
عزت دار آدمی ذرا سی بات پر بغلیں جھانکنے لگتا ہے اور بے شرم آدمی سینہ تان کر کہتا ہے ہاں بھائی ہم تو ایسے ہی ہیں
آج کل کے زمانے میں تو عزت دار کا حال اس غریب جیسا ہے جو ریشمی قبا پہن کر کیچڑ میں سے گزر رہا ہو اسے ڈر ہے کہ کہیں چھینٹ نہ پڑ جائے جبکہ وہ شخص جو پہلے ہی نالے میں نہا کر نکلا ہو وہ تو اچھل اچھل کر چلتا ہے کہ دوسروں کے کپڑے بھی رنگین کر دے
جن کے نام سے مجلسوں میں وقار اُترتا ہے
انہی کے ایک لغزش پر اخبار بکتا ہے
یہ کہنا کہ بےعزتی بری چیز ہے سراسر سادگی ہے بےعزتی دراصل عزت کی رسید ہے بغیر اصل کے نقل کہاں چلتی ہے جس کے پاس عزت کا سرمایہ ہو اُسی کے کھاتے میں خسارے کا اندراج بھی ہوتا ہے باقی جن کے کھاتے خالی ہوں اُن کی بےعزتی بھی قرض پر نہیں ملتی
سچی بات تو یہ ہے کہ بے عزتی کا لطف بھی وہی اٹھاتا ہے جس نے زندگی بھر عزت کی روٹی توڑی ہو ورنہ جس نے ہمیشہ دھپ دھپا ہی کھایا ہو اسے تھپڑ بھی سہلانے جیسا لگتا ہے
اگر آپ کو اپنی عزت عزیز ہے، تو اسے تجوری میں بند کر کے رکھیے کیونکہ باہر تو ہر دوسرا شخص مٹی اچھالنے کے لیے تیار بیٹھا ہے
عزت اور بےعزتی دونوں ہی امتیاز کی علامت ہیں جسے کوئی پوچھے ہی نہ وہ نہ عزت میں ہے نہ بےعزتی میں سو اے دوست اگر تمہیں بےعزتی ہو رہی ہے تو غم نہ کرویہ سمجھو کہ تم میں ابھی کچھ تو بات ہے تبھی تو تمہاری طرف انگلی اٹھ رہی ہے
اور اگر کوئی بے عزتی کر دے تو سمجھ لیجیے کہ آپ اب بھی عزت داروں کی فہرست میں شامل ہیں
جس کے نام سے پہچان ہو وہی نشانے پر آتا ہے
خالی ناموں پر زمانہ پتھر بھی نہیں اُٹھاتا ہے
گوشہ افکار
خلیل الرحمٰن
واپس کریں
منظر الحق کے دیگرکالم اور مضامین