دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
‏کرپشن کہانی۔ثاقب نثار کا صادق امین
قاضی واجد شریف
قاضی واجد شریف
شیخوپورہ کے علاقے فیروزوالہ میں سابق آئی جی پنجاب شاہ نذیر عالم کی بیوہ اور جنرل ر شاہ عارف عالم کی سوتیلی والدہ مسمات نگہت ارم 500 کنال 9 مرلے اراضی کی مالک تھیں۔ انہوں نے اس اراضی کا مختارنامہ 1996 میں عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی کو دیا۔
مختار نامے کی بنیاد پر اکرام اللہ نیازی نے یہ اراضی 13 اکتوبر 2004 کو اپنے بیٹے عمران خان اور چار بیٹیوں کو 70 لاکھ روپے میں فروخت کر دی
عمران خان نے یہ جائیداد 2005' 2006 اور 2007 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل میں ظاہر نہیں کیا۔ جبکہ 2005 سے 2009 تک اپنی انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کیا
19 مارچ 2008 کو اکرام اللہ نیازی کا انتقال ہوا۔ جس کے بعد علیمہ خان نے یہ جائیداد اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کی لیکن غلط بیانی کرتے ہوئے اسے "وراثتی" ظاہر کر کے اس کی مالیت صفر لکھی۔ حالانکہ جائیداد اپنے والد سے "خریدی" تھی

عمران خان نے یہ جائیداد 2010 میں ظاہر کی لیکن غلط بیانی کرتے ہوئے اسے "وراثتی" اور مالیت "صفر" ظاہر کی
2004میں خریدی اس جائیداد متعلق 15 سال مسلسل جھوٹ بولنے کے بعد 2019 میں متین احمد بُھلہ کو35 کروڑ روپےمیں فروخت کردیا گیاخریدارکاٹیکس بچانےکیلئےجائیداد کو1ہی شخص کو2ماہ میں 80 رجسٹریوں کے ذریعے بیچا گیا اور ہر رجسٹری کی مالیت 40 لاکھ سے کم رکھی گئ
عمران خان کو 2005 میں پشاور میں ایک پلاٹ "گفٹ" ملا۔ جس کی لیکن دس سال چھپانے کے بعد پہلی دفعہ 2015 میں ظاہر کیا۔ 2005 میں عمران خان اسمبلی کا رکن تھا لیکن الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی تفصیل میں اس پلاٹ کو ظاہر نہیں کیا گیا

28 دسمبر 2015 کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران عمران خان نے اس پلاٹ کی ملکیت کو تسلیم کیا اور بتایا کہ یہ پلاٹ شوکت خانم ہسپتال کو دیدیا گیا ہے
1987 میں بھارت کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دینے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو لاہور میں رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا جس کی ایک شرط یہ تھی کہ پہلے سے پنجاب میں کوئی گھر یا پلاٹ نہ ہو

نیازی نےبھی2 اپریل1987کو پلاٹ کیلیے درخواست دی جس کیساتھ بیان حلفی لگایاکہ اسکاکوئی گھر یاپلاٹ نہیں جبکہ اسوقت وہ اپنےفیملی ہاؤس میں رہتےتھےاور ویسٹ وڈ سوسائٹی لاہور میں کئی پلاٹوں کےمالک تھےیہ سوسائٹی اکرام اللہ نیازی نےاسی کی دہائی میں بنائی تھی
عمران نے10مئی1983کوجرسی آئی لینڈ میں نیازی سروسز لمیٹڈ کےنام سےآفشور کمپنی بنائی اس کمپنی کےمتعدد بنک اکاؤنٹس کھولےاسی کمپنی کےنام پر لندن میں117000پاؤنڈ کا اپارٹمنٹ خریدا 2015 تک کمپنی اوراکاؤنٹس نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیے
2000 میں یہ اپارٹمنٹ اس وقت ظاہر کیا گیا جب جنرل ر مشرف نے کالا دھن سفید کروانے کیلیے ٹیکس ایمنیسٹی سکیم متعارف کروائی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ 2002 کے الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بننے کا امیدوار تھا
ثاقب نثار کے فیصلے کے مطابق آفشور کمپنی صرف اپارٹمنٹ کیلیے بنائی گئی تھی اس لیے اس کا علیحدہ سے ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا حالانکہ عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آفشور کمپنی کے ذریعے دیگر کام بھی کیے جا رہے تھے

عمران خان کی طرف سے جمع کروائی گئی بنک سٹیٹمنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کم وبیش ایک لاکھ پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز اپارٹمنٹ سے متعلقہ نہیں تھیں۔ اور یہ سٹیٹمنٹس بھی صرف پانچ سال کی تھیں۔ 15 سال کی بنک سٹیٹمنٹس عدالت کو فراہم ہی نہیں کی گئیں
نومبر2020میں خبریں سامنے آئیں وزیراعظم نے غیر ملکی سربراہوں سےملنے والےتحائف میں کوئی تحفہ توشہ خانےسےلیا اور پھر فروخت کر دیاایک شہری ابرار خالد نےکابینہ ڈویژن کو درخواست دی کہ وزیراعظم کی طرف سےرکھے جانیوالےتحائف اور انکی مالیت سے آگاہ کیا جائے‏
کابینہ ڈویژن نےیہ تفصیل دینےسےانکارکردیا جس پر شہری نےپاکستان انفارمیشن کمشن کو درخواست دی کمشن نے21جنوری2021کو کابینہ ڈویژن کوتفصیل فراہم کرنےاور ویب سائٹ پر بھی شائع کرنے کاحکم دیاجس کو کابینہ ڈویژن نے 10 ستمبر 2021 کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا
فیصلہ چیلنج کرنے کے دس دن بعد 10 ستمبر 2021 کو عمران خان نے توشہ خانہ سے لیا جانیوالا گفٹ اپنی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کر دیا جس کی مالیت 11.68 ملین روپے ظاہر کی

عمران خان نے اپنی ٹیکس ریٹرنز ہمیشہ لیٹ داخل کیں لیکن 2021 کی ٹیکس ریٹرنز ستمبر میں ہی جمع کروا دیں جس میں توشہ خانہ سے لیا جانے والا "تحفہ" ظاہر کر دیا

واپس کریں