دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دہشت گردوں کی نئی اقتصادی " لائف لائن " پختونخوا کے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
افواج پاکستان اور سیکیورٹی ادارے جوں جوں دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کیئے جارہے ہیں ، توں توں دہشت گرد بھی جنگ جاری رکھنے کے لیئے اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ کسی بھی جنگ میں فریقین کو بےتحاشا وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک طالبان سمیت مختلف دہشت گرد گروہ وسائل کے لیئے سنگین ترین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ دہشت گردی کے لیئے جمع کیئے جانے والے وسائل کی فہرست میں سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان ، لوٹ مار ، ڈکیتی اور چوریاں ، بھتہ خوری اور منشیات کے دھندے سرفہرست رہے ہیں۔ تاہم ایک اور موثر ذریعہ جو انٹیلیجنس ایجنسیوں اور سیکورٹی اداروں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے وہ خیبر پختونخوا کے قدرتی وسائل کی بےدریغ لوٹ مار اور چوری ہے۔ دہشت گردی کی کاروائیوں میں سرفہرست قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے حاصل شدہ بھاری رقومات ہے جو ان مذموم کاروائیوں کی تکمیل کے لیئے استعمال ہورہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے پاک ، افغان بارڈ کو محفوظ بناتے ہوئے جہاں دراندازیوں کو تسلی بخش حد تک روکا ہوا ہے وہاں سمگلنگ اور منشیات کے کاروبار کو بھی کم ترین سطح پر لایا جاچکا ہے۔ اسی طرح ہنڈی اور حوالہ کے خلاف موثر کاروائیوں نے بھی دہشت گردوں کی معاشی کمر تقریبا توڑ کر رکھ دی ہے اور دہشت گردوں کو بیرونی ترسیلات زر منفی کے قریب ہونے کو ہے۔ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی چوکنا رہنے کی وجہ سے دہشت گردوں کی عوامی چندہ مہمات بھی عملا ختم ہوچکے ہیں جبکہ امن و امان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی کم ترین سطح پر اچکی ہیں۔ وسائل کی کمی اور بڑھتے ہوئے مالی دباو کیوجہ سے عسکریت پسندوں کی کاروائیوں میں شدت نہیں رہی ہے جس نے دہشت گرد گروہوں کو متبادل اقتصادی ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان محفوظ اور موثر ذرائع کی تلاش انہیں خیبر پختونخوا کے قدرتی وسائل کے لوٹ مار کی طرف لے گئی ہے۔ تازہ ترین مثال کے طور پر وزیرستان کے تحصیل برمل کے مختلف پہاڑی سلسلوں میں قیمتی درختوں کی بے دریغ جاری کٹائی کو لیا جاسکتا ہے۔ اس قبیح عمل سے جہاں دہشت گردوں کی "لائف لائن" رواں ہے وہاں علاقے کی قدرتی خوبصورتی اور ماحولیاتی توازن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ دہشت گردوں کی اس حکمت عملی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ محکمہ جنگلات اور مقامی انتظامیہ نے اس پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جبکہ ٹمبر مافیا اور بااثر افراد کے گٹھ جوڑ جنہیں دہشت گردوں کی آشیرباد اور سرپرستی حاصل ہے نے یہ مکروہ دھندہ بے خوف و خطر جاری رکھا ہوا ہے۔
مقامی لوگوں نے انتظامیہ اور متعلقہ محکمے کی چشم پوشی پر انتہائی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس عمل کو انتہائی قابل افسوس قرار دیا ہے۔ اس باریک واردات کی وجہ سے مقامی آبادی میں بےچینی اور خوف بڑھ رہا ہے جو انہیں مستقبل کی ماحولیاتی تبدیلیوں، معاشی نقصانات، دہشت گردی کی فنڈنگز اور علاقائی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی خدشات کی وجہ سے لاحق ہے۔
یہ واردات صرف وزیرستان تک محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقہ جات جو اب بندوبستی اضلاع میں ضم ہوچکے ہیں، میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ سوات، بونیر، دیر، ہزارہ اور کوہستان کے قدرتی وسائل بھی اسی نوع کی لوٹ مار کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمیق معلومات کے مطابق قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں دہشت گرد تنظیموں کا حصہ برابر پہنچایا جارہا ہے جو ریاست کی فوری توجہ، تحقیقات اور تدارک کا متقاضی ہے۔
واپس کریں