خالد خان۔ کالم نگار
بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ اپنے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے " قرض اتارو ملک سنواروں کے پروگرام کے دوبارہ اجراء کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل خبر کچھ یوں آگاہ کرتا ہے کہ " وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا قرض اتارو ملک سنواروں پروگرام کی بحالی کے بارے اہم اقدام
نومبر 2024 سے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 5% کٹوتی ہوگی جس کا مقصد "قرض اتارو ملک سنواروں" ہوگا
سرکاری ملازمین کی پینشن میں 10% کی ریکارڈ کمی کا فیصلہ
وزیراعظم پاکستان کا تمام ممبران قومی اسمبلی کو نومبر 2024 سے تنخواہیں نہ دینے کا فیصلہ
اپنے سرکاری پروٹوکول میں سے 25 میں سے 15 گاڑیاں نیلامی کرنے کا فیصلہ
18 گریڈ سرکاری ملازمین ہر ماہ 10 ہزار روپے " قرض اتارو ملک سنواروں" پروگرام میں اپنا حصہ ڈالیں گیں
پنجاب سمیت ملک بھر میں 60 فیصد سے بھی کم رزلٹ دینے والے سرکاری تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر ختم کرنے، نجکاری کرنے اور تمام سٹاف کو برطرف کرنے کا فیصلہ
وزیراعظم پاکستان کا تمام سرکاری چالانوں اور ٹیکسز میں 50 فیصد اضافے کا حکم"۔
اگر چہ یہ خبر راقم الحروف کو درست نہیں لگتی لیکن چونکہ ابھی تک حکومت نے نہ ہی اسکی کوئی تردید کی ہے اور نہ ہی کوئی وضاحت پیش کی ہے تو ہم اس پر اپنا تبصرہ کرنے کے حق کو استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں یہ کوئی حق نہیں کہ بڑے میاں صاحب کے اسی پروگرام بارے کوئی سوال کریں اور بحیثیت پاکستانی حساب کتاب مانگیں کہ کتنی رقم گزشتہ مرتبہ جمع ہوئی تھی اور وہ کہاں خرچ ہوئی ہے۔ ہم یہ جرآت بھی نہیں کرسکتے کہ ڈیم فنڈز کے بارے میں کوئی سوال پوچھیں، کوئی جانکاری حاصل کرسکیں۔ ہماری یہ استحقاق بھی نہیں کہ گزشتہ 75 سالوں میں زلزلوں، سیلاب، قدرتی آفات اور جس جس مقصد کے لیئے اور جس جس نعرے پر عوام سے زور زبردستی فنڈز لیئے گئے ہیں اس کے بارے میں سوال اٹھائیں کہ ان کا کیا ہوا؟ کہاں خرچ ہوئے؟ کوئی حساب کتاب؟ کوئی اڈٹ؟
ہاں بطور پاکستانی ہمیں یہ حق ضرور حاصل ہونی چاہیئے کہ ایسے " ہاتھ مروڑ پروگرامز " کے لیئے کم از کم حقیقت سے میل کھاتے ہوئے کوئی نام تو تجویز کریں ۔ وزیر اعظم صاحب کے اس چنے گئے نام " قرض اتارو، ملک سنواروں" سے ہمیں کئی ایک اختلافات ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ قرض نہ تو ہم عوام نے لیا ہے اور نہ ہی ہم پر خرچ ہوا ہے تو ہمیں اتارنے کا کیوں کہا جارہا ہے۔ چلیئے اس بحث کو بھی جانے دیجئے۔ گدھے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے پر لادے ہوئے بوجھ کے بارے میں کوئی سوال کرے۔ یہ گدھے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لادے ہوئے بوجھ کو منزل پر اتار دے۔ بالکل اسی طرح جس طرح غلام کو آقا کے انتخاب کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا اور ایک خود کار نظام کے تحت غلام آقاؤں میں تقسیم ہوتے رہتے ہیں۔ آقا ان غلام گردشوں کے تقدس اور بقا پر اتنے متحد ہوتے ہیں کہ ہر موضوع پر اختلاف کرسکتے ہیں مگر حساب کتاب والے عوامی تقاضے پر قوت اخوت خواص ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شک ہو تو میاں صاحب سے خان صاحب کے فروخت شدہ وزارت عظمی بھینسوں اور گاڑیوں کا حساب کتاب تو کوئی مانگ کر دیکھے۔
ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے بس صرف اتنی گزارش کرونگا کہ ہم عوام کے پاس اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ مشرقیت، حیا، پردہ اور عزت نفس کے نام پر ہمارے پاس بس ایک شلوار ہی باقی بچی ہوئی ہے جس سے ستر پوشی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ملک سنوارنے کے لیئے یہ شلوار بھی چاہیئے تو حکم کچھ یوں کیجئے کہ " شلوار اتارو، ملک سنواروں " اور پھر دیکھئے کہ ہم کیسے الف ننگے ہوتے ہیں کہ اشرافیہ کو برہنہ کرنے کی ہم میں جرآت ہی نہیں ہے ۔
واپس کریں