محمد ریاض ایڈووکیٹ
اپنے گذشتہ کالم ''تاجِ برطانیہ کے نو سالہ راج کا خاتمہ'' یہ بتانے کی کوشش کی کہ آزادی کے نو سال تک بالواسطہ پاکستان میں تاجِ برطانیہ کا راج رہا اور 23مارچ 1956 پاکستان میں آئین نافذ ہونے کے بعد تاج برطانیہ کوخداحافظ کہہ دیا گیا۔ تاجِ برطانیہ کے بعد انکے جانشینوں نے پاکستان پر اپنے قبضہ کو دیگر طریقوں سے جاری و ساری رکھا۔ دورِجدید کے نظام ِحکومت یعنی جمہوریت میں اُمورِریاست چلانے کے لئے حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ انہی تین حصوں کو عُرف عام میں ریاست کے تین ستون کہا جاتا ہے۔ ریاست ِ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جمہوری روایات و اقدارپنپ نہ سکے۔ 77سالوں میں آدھا عرصہ غیر جمہوری غیر منتخب آمروں نے ریاست پر قبضہ جمائے رکھا۔ ان آمروں نے انتظامیہ کیساتھ ساتھ مقننہ یعنی پارلیمینٹ اور عدلیہ کو بھی اپنے اقتدار کی لونڈی بنائے رکھا۔ من چاہے عدالتی فیصلے لینا انکے لئے مشکل نہ تھااور اسی طرح آمروں کے ہاتھ کے اشارے اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آئین و قانون کی حیثیت قرار پاتے تھے۔ باقی ماندہ عرصہ یعنی جمہوری ادوار میں غیر جمہوری طاقتوں نے توڑ جوڑ کی سیاست کو برقرار رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو یا پھر عمران خان ایسے سیاستدانوں کی پشت پناہی جاری رکھی۔ پاکستانی جمہوری نظام کی بدقسمتی کہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کے لئے انہی طاقتوں کی ضرورت پڑتی رہی، جنکے خلاف وہ میدان سیاست میں اپنی توانیاں صرف کرتے رہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو ہم غیر جمہوری طاقتوں اور سیاستدانوں کو ہمیشہ موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی عدلیہ میں بیٹھے نام نہاد منصفوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں رہا۔ یہ پاکستانی عدلیہ ہی تھی کہ جس نے نظریہ ضرورت کو جلا بخشی اور جمہوری حکومتوں کا گلہ گھونٹے والی طاقتوں کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے لئے بھونڈے دلائل بھی پیش کئے اور آمروں کو آئین میں ترمیم کے حقوق بھی عطا فرمائے۔ آمروں کے ادوار میں ہماری عدلیہ لنگڑی لولی اور بے زبان بیوہ کا کردار ادا کرتی رہی۔ عدلیہ کی جانب سے جمہوری لیڈرشپ کو پھانسیوں، قید و بند کی صعوبتوں سے نوازا جاتا رہامگر آمروں کے غیر آئینی اقدامات پر چُپ کا روزہ رکھ لیا جاتا۔
جیسے ہی آمروں کا اقتدار زوال پذیر ہوتا یہی عدلیہ تلواریں نکال کر پارلیمینٹ اور انتظامیہ کے آئینی اختیارات پر شب خون مارنا شروع کردیتی۔ ماضی بعید کو چھوڑیں؛ماضی قریب میں پرویز مشرف کے بعد عدلیہ میں بیٹھے منصفوں نے کس طرح یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور شہباز شریف حکومتوں اور پارلیمینٹ کیساتھ سلوک رواں رکھا۔ افتخار چوہدری اور ثاقب نثار ایسے منصفوں کا جوڈیشل ایکٹوزم بھولا نہیں جاسکتا جسکی بدولت ریاستِ پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
مملکت میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التو اء تھے مگر بابا رحمتا ثاقب نثار جیسے منصف اپنے ادارے میں ہونے والی بدعنوانیوں اور سائلین کیساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی بجائے جیل، تھانوں، ہسپتالوں دیگر حکومتی اداروں کے انتظامی اُمور میں مداخلت کرتے رہے اور بابا رحمتا جس کام کی تنخواہ لیتا تھا اسے چھوڑ کر ڈیم فنڈ اکٹھا کرتا رہا۔ بدقسمتی سے آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو جواز بخشنے والی عدلیہ جمہوری ادوار میں پارلیمینٹ سے منظور کردہ قوانین کو کالعدم قرار دینے میں پیش پیش رہی۔ جمہوری ادوار میں عدلیہ کی جانب سے من مرضی آئینی تشریحات کرنا معیوب نہیں سمجھا گیا۔ یاد رہے افتخار چوہدری نے پارلیمینٹ کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر 19ویں آئینی ترمیم منظور کروائی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 175(3)میں واضح درج ہے کہ سال 1987تک عدلیہ کو انتظامہ سے علیحدہ کیا جائے گا اسی طرح آرٹیکل 2-Aعدلیہ کی مکمل آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ افسوس یہ آئینی خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہ پایا۔
آئین پاکستان واضح حد تک ریاست پاکستان کے تمام ستونوں کے کردار، افعال، ذمہ داریوں اور حدود کا تعین کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے تمام ادارے نہ صرف اپنی آئینی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتے رہے بلکہ دوسرے اداروں کے آئینی کردار میں بے جا مداخلت بھی کرتے رہے ہیں۔ آج ہم سیاستدانوں کو تو بہت برا بھلا کہتے ہیں بوجود اسکے سیاستدان ہمیشہ اکٹھے نہیں ہوتے مگر یاد رہے ہر آمر کے خلاف صرف سیاستدان ہی میدان عمل میں رہے اور جمہوریت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے مسلسل جدوجہد میں مصروف عمل رہے۔ آج بھی ریاست کے تینوں ستونوں کی باہم گتھم گتھا جاری ہے۔ اسکے علاوہ اداروں کے اندر بھی باہمی چپقلش کسی سے ٹھکی چھپی نہیں رہی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بنی ججز کی تین رکنی خصوصی کمیٹی کی صورتحال اور فیض حمید کا کورٹ مارشل تازہ ترین بہترین مثالیں ہیں۔ ریاست پاکستان کی موجودہ معاشی، معاشرتی، سیاسی، آئینی اور جغرافیائی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں۔ عدلیہ پارلیمینٹ کو، پارلیمینٹ عدلیہ کو، انتظامیہ پارلیمینٹ و عدلیہ کو زیر نگین کرنے کے درپے دیکھائی دے رہی ہے۔ مشرقی کے علاوہ مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں۔ اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کے لئے ریاست کے تینوں ستونوں کو آئین پاکستان کی پاسداری کرنا پڑے گی۔ پارلیمانی و سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ملکی سلامتی کے لئے اکٹھا ہونا پڑے گا ورنہ ریاستی ستونوں کی لڑائی کا انجام'' میرے عزیز ہم وطنوں '' کی سریلی صداکی صورت میں سننا پڑے گا، جب عدلیہ سمیت سب کو سانپ سونگھ جائے گا۔ اللہ کریم پاکستان کو دائمی استحکام نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ پاکستان زندہ باد، پاکستانی ریاستی ستون پائندہ باد
واپس کریں