دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رینجرز کے ہاتھوں شہادتیں آزاد کشمیر کی اشرافیہ کو مبار ک۔آصف اشرف
مہمان کالم
مہمان کالم
گیارہ ماہ کی تحریک کے بعد آج جب لوگ خوش ہیں تو میں سوگ میں اس سوگ کی وجہ اور کوئی نہیں آزاد کشمیر کی اشرافیہ ہے جس کو تین عظیم شہیدوں کے خون پر عیاشی کرنے 23ارب روپیہ اور ملا ہے اور سانحہ یہ ہے کہ پورے کشمیر سے کسی ایک فرد کو بھی اس کا احساس نہیں نہ ادراک تئیس ارب روپیہ بھیک ملی ہے وہ بھی حکمران طبقہ پھر اپنی عیاشی پر استعمال کرے گا
۔گزشتہ سال جب تحریک چلی تو اس کے چارٹرڑ آف ڈیمانڈ میں بجلی اور آٹے کے ساتھ تیسرا مطالبہ شرافیہ کی مراعات ختم کروانا تھا میں حلفیہ لکھ رہا ہوں کہ اس مطالبے کے محرک قوم پرست رہنما صغیر خان تھے یہ مطالبہ ان کی تجویز پر عمر نذیر کشمیری نے چارٹرڑ آف ڈیمانڈ میں شامل کیا یہ وہ مطالبہ تھا جو بڑوں کو نا پسند تھا اسی وجہ سابق ممبران اسمبلی اور موجودہ ممبران اسمبلی تحریک کا حصہ نہ بنے چونکہ ان کی پنشن کا ختم کیا جانا بھی اس میں شامل تھا تینوں مطالبات میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو پاکستان حکومت پاکستانی فوج سے متعلق ہو نہ ہی ان مطالبات کے پورا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی بجلی واپڈا سے آج تک جو بھی ازاد کشمیر حکومت خریدتی ہے اس کی ادائیگی دو روپیہ انسھٹہ پیسہ فی یونٹ ہوتی ہے باقی جتنے ٹیکسز ہیں وہ آزاد کشمیر حکومت اپنی عیاشی پر خرچ کرتی ہے انہی ٹیکسوں سے ججز وزراء صدر وزیراعظم کو کروڑوں روپیہ کی گاڈیاں لیکر دی جاتی ہیں ممبران اسمبلی کو ریٹائرمنٹ پر پنشن دی جاتی ہے ۔
اصول یہ تھا کہ انوار الحق چودھری اور ن لیگ کشمیر کے لیڈر شہباز شریف سے مطالبہ یہ رکھتے کہ آزاد کشمیر میں اس وقت چونتیس سو میگا واٹ بجلی پیدا ہو کر پاکستان جا رہی ہے اور اہل آزاد کشمیر کو محض چار سو میگا واٹ بجلی ضرورت ہے جو نہیں مل رہی یہ پوری کی جائے اور کشمیر کا نیشنل گریڈ اسٹیشن قائم کیا جائے تاکہ کشمیر کو ضرورت چار سو میگا واٹ بجلی یہاں پر ہی سٹاک ہو اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہو مگر اس مانگ کی انوار الحق چودھری راجہ فاروق حیدر شاہ غلام قادر سمیت شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے کسی نے مانگ نہ کی اور ستم یہ کہ ایکشن کمیٹی بھی یہ مطالبہ بھول گئی حالانکہ نو مئی کے دھرنے کے بعد جو پہلا بینر لکھا گیا تھا اس پر بندہ ناچیز کی تجویز سے یہی مطالبہ تھا کہ ازاد کشمیر کو فری لورڈشیڈنگ زون قرار دے کر اس کا اپنا نیشنل گریڈ اسٹیشن قائم کیا جائے دوسرا مطالبہ آزاد کشمیر میں آٹا اور بجلی گلگت بلتستان جتنی قیمت پر دیا جائے اور تیسرا مطالبہ اشرافیہ کی مراعات ختم کی جائیں جس طرح بجلی ایشو پر پیسے کی ضرورت نہیں تھی اسی طرح اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے پر بھی پیسوں کی ضرورت نہیں تھی نہ اب ہے ضرورت اسمبلی میں بل لانا ہے جس طرح "حکم خاص" پر سارے غیرت کے دعوے دار بے ضمیر ممبران اسمبلی نے رات اٹھ کر باجماعت ہاتھ باندھ کر انوار الحق چودھری کو ووٹ دئیے اسی طرح سب نے قرار داد پر دستخط کرنے تھے کہ سابق ممبران اسمبلی کو اب پنشن نہیں ملے گی ججز سمیت کسی سرکاری آفیسر وزراء حتی کہ صدر اور وزیر اعظم کے پاس تیرہ سو سی سی گاڑی سے ہٹ کر گاڑی نہیں ہوگی ،تمام بڑی گاڑیوں کی نیلامی کی جائے گی دفتری اوقات سے ہٹ کر سب پر سرکاری گاڑیوں کے استعمال کی پابندی ہوگی ریٹائرمنٹ کے بعد مفت بجلی مفت پٹرول ڈیزل کی سہولت ختم ہوگی سرکاری آفیسر ز کے ساتھ صدر ریاست وزیراعظم اور ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازم ڈرائیور باڈی گارڈ کک کی سہولتیں ختم ہوں گی بچوں کو تعلیمی اداروں پہنچا نے اور بیگمات کی شاپنگ پر سرکاری گاڑیوں پر پابندی عائد ہوگی اس قانون کی ضرورت ہے اس پر بھی پیسے کی ضرورت نہیں آٹے پر جو کمی کی گئی اس میں بھی سات ارب روپیہ سے زیادہ خرچ نہیں ہوگا۔
وجہ یہ ہے کہ پہلے بارہ ارب کی سبسڈی دی جاتی تھی اب مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ہوئی دوسری طرف سرکاری آٹے کی کھپت بھی کم ہوئی پاکستان والا اٹادوہزار روپیہ من سستاہواتو ایک بڑی تعداد اب وہ خرید رہی ہے اس سارے عمل کے بعد تئیس ارب روپیہ کدھر خرچ ہوگا کیسے ہوگا وہ صرف اشرافیہ کی عیاشی کا سبب بنے گا نو ماہ کے بجلی بلز بائی کاٹ تحریک میں سوا تین ارب روپیہ کے قریب گھروں کا اور ایک ارب اور کچھ لاک تاجران کے بل واجب الادا ہیں تئیس ارب روپیہ سے اصولی طور وہ ادائیگی ہونی چاہیے مگر وہ بھی نہیں ہو رہی اور لوگ خوش ہیں کہ انہیں وہ بل اقساط میں دینے ہوں گے افسوس اس بات کا ہے کہ ایکشن کمیٹی اس بات کا ادراک نہیں کر رہی کہ ان کی تحریک کے نتیجہ میں اشرافیہ کو عیاشی کے لیے بھاری بھر رقم ملی اور اس سے چار ارب بھی لوگوں کو نہیں دیا جا رہا شرم کی بات یہ ہے کہ واپڈا کے زمہ بجلی بلز بائی کاٹ تحریک کا جو چار ارب روپیہ ظاہر کیا جاتا ہے وہ بھی جعل سازی ہے ۔
جب واپڈا دو روپیہ انسھٹہ پیسہ فی یونٹ قیمت وصول کرتا ہے تو ان نو ماہ کے بجلی بلز سے ٹیکسوں کی نفی کی جائے تو یہ رقم محض ایک ارب روپیہ بھی نہیں پھر کیوں انوار الحق چودھری کی حکومت تئیس ارب روپیہ سے یہ ادائیگی کرتی کیوں اقساط پر لی جائے گی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بدترین تشدد سہہ کر شہید کمانڈر جوگی بادشاہ کا اکلوتا بیٹا چودھری مظہر الدین این ایس ایف کا جیا لا ثاقب ساقی اور غریب غیر سیاسی گھرانے کا سپوت وقار قربان کر کے ہم بھیک میں شہباز شریف سے تئیس ارب روپیہ لائے اور وہ اس عوام کی ضرورت پوری کرنے کے بجائے اشرافیہ کی عیاشی کا باعث بنے گا محکمہ خوراک اور محکمہ برقیات کے بڑوں کی عیاشی صدر ریاست وزیراعظم ممبران اسمبلی کی عیاشی کیا راجہ فاروق حیدر شہیدوں کے ہاں زلیل ہونے کے بعد کیا خواجہ فاروق شہید کے گھر زلت کا شکار ہو نے کے بعد کیا وزیراعظم آزاد کشمیر انوار الحق چودھری مودی کی طرح طنز کا نشانہ بننے کے بعد کیا یعقوب خان حسن ابراہیم عتیق خان سے لیکر ضیاء قمر تک ایوان میں جانے والا کوئی ایک اب اسمبلی میں یہ آواز اٹھا سکے گا کہ یہ تئیس ارب روپیہ ہم پر حرام ہے یہ چار شہداء کے خون کا صدقہ ہے یہ صرف عوام پر خرچ ہو ،کیا کوئی ایک ممبر اسمبلی یہ قرار داد لانے کی جرات کرے گا کہ آزاد کشمیر کو فری لورڈشیڈنگ زون قرار دیا جائے آزاد کشمیر کا نیشنل گریڈ اسٹیشن قائم ہو کیا محکمہ خوراک کا ہو زمہ دار اور ماتحت آٹے کی قیمت اور سبسڈی پر کمیشن اور ٹنکے مار عمل کو شہیدوں کے لاشے سامنے رکھ کر حرام جانے گا کیا محکمہ برقیات اب مفت بجلی اپنے لیے حرام قرار دے گا کیا ایکشن کمیٹی یہ جنگ مکمل فتح تک لے جا سکے گی جب منگلا کی پیداوار ی لاگت پر بجلی بلز ہوں گے کہ آئی پی پیز کے نام پر یہ نو ماہ کے بائی کاٹ تحریک سے چار ارب روپیہ کی ادائیگی کا کیا جواز ہے ۔
آزاد کشمیر کے سارے سیاست کار جو ان کا نظریہ کوئی ہو شہدائے زلزلہ کے قیامت کے چور ہیں زلزلہ متاثرین کےلئے پچپن ارب روپے کی امداد تب اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر عتیق خان سے اس وقت کے صدر پاکستان آصف زرداری لے گئے تھے کوئی آج تک اس رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکا اب اسی طرح شہداء مظفرآباد جو پاکستان رینجرز کی فائرنگ سے شہید ہوئے ان کے خون کے صدقے ملی تئیس ارب روپیہ کی بابت پوچھنا ضرورت ہے کہ وہ کدھر کیسے خرچ ہوگی جب آٹا چھتیس سو روپیہ من تھا تب بارہ ارب روپیہ کی سبسڈی ضرورت پوری کرتی تھی اب آٹا سستا بھی ہوا پھر سبسڈی پر اصافہ کیسے ؟پہلے ٹیکسوں کا جواز تھا اب جب لیسکو سے کنٹریکٹ ہی نہیں پیداواری لاگت صارف دے گا تو پھر تئیس ارب روپیہ کدھر خرچ ہوگا یہ کون پوچھے گا کہ بارہ سو روپیہ میں تیار بجلی میٹر کس قانون میں چھ ہزار روپیہ میں صارف کو مہیاء کیا جاتا ہے میعاری اور رجسٹر ڈ کمپنی کے میٹرز کیوں نصب کرنے رکوا کر جعلی میٹر مہنگے ترین داموں کس بیوروکریٹ کو مالی فائدے سے نوازنے خریدے جا رہے ہیں۔
آج سوگ اس کا بھی ہے کہ کہ کیوں شہداء مظفرآباد کے قتل کی ایف آئی آر رانا ثنا اور ڈی جی رینجرز کے نام کٹوانے کی مانگ کی جاتی جب کوہالہ سے اگلے دن زرداری نے رینجرز واپس بلوا لی اور معاہدہ بھی ہوگیا پھر رانا ثنا کیوں میڈیا پر آکر یہ کہہ رہا تھا کہ مظاہرین سے آئینی ہاتھوں نمٹیں گے اور رینجرز بھجیں گے کیوں قاتلوں کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا جاتا کیا صرف تئیس ارب روپیہ اور وہ بھی اشرافیہ کی عیاشی کے لیے ملنا سب کچھ ہے کیا اس قوم کے مقدر میں صرف نعیم بٹ کی طرح قربانی دینا ہی ہے ۔۔ایک روز پوچھے گی ہم سب سے طن کی آبرو ۔کس کس کی کٹی گردنیں کس کس نے بیچا لہو۔
واپس کریں