دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دوران عدت نکاح ۔ ناقابل تردید حقائق
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
عمران خان کی تیسری بیوی بشری بی بی کے شوہر اول خاور فرید مانیکا کی جانب سے دوران عدت غیر قانونی نکاح کے برخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496اور 496-Bکی درخواست میں عدالتی کاروائی مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پچاس صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جسکے مطابق عمران خان اور بشری بی بی نے یکم جنوری 2018 کو دوران عدت، بے ایمانی اور دھوکہ دہی کے ساتھ غیر قانونی نکاح کیا، لہذا دونوں افراد تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496کے تحت سات سات سال قید بمع پانچ لاکھ جرمانہ فی کس کی سزا کے مستحق ہیں۔ جبکہ عدالت نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 227کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے مدعی کی 496-Bکے تحت الزام کو فرد جرم میں شامل نہیں کیا ۔ یاد رہے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496کے مطابق: جو کوئی بھی، بے ایمانی یا دھوکہ دہی کے ارادے سے ایسی شادی کرتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس طرح قانونی طور پر شادی شدہ تسلیم نہ ہوگا، ایسے فرد پر جرم ثابت ہونے پر سات سال تک قید بمع جرمانہ کی سزا تجویز کی گئی ہے۔عدالتی فیصلہ جاری ہونے کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پر عمران خان کےحامیوں اور مخالفین کی جانب سے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تعریف و تنقید شروع کردی گئی۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث و مباحثہ کے دوران ایک بات انتہائی افسوسناک دیکھنے کو ملی کہ ہم سب شخصیت پرستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اپنی پسند کی لیڈرشپ کے خلاف جائز تنقید کو برداشت کرنا انتہائی مشکل عمل ہوچکا ہے۔ عمران خان کے چاہنے والے اس عدالتی فیصلے کوپی ٹی آئی لیڈرشپ کے خلاف کاروائیوں کا شاخسانہ قرار دیتے نظر آئے تو کہیں پرنکاح، طلاق اور عدت کی من مانی تشریحات کرتے دیکھائی دیئے۔ یاد رہےدین اسلام میں نکاح، طلاق اور تمام عائلی معاملات کی بابت قرآن و حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ مذہب اسلام کے کسی گروہ، فرقے یا مسلک میں نکاح، طلاق اور عدت کے معاملات میں بنیادی مسائل میں کوئی اختلاف موجود نہیں۔ یعنی نکاح کے بغیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا گناہ کیساتھ ساتھ قابل سزا جرم بھی ہے۔ اسی طرح طلاق ، خلع یا وفات کے علاوہ ایک شادی شدہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ عین اسی طرح عدت مکمل کئے بغیر بیوہ یا متعلقہ عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ ریکارڈ کے مطابق خاور مانیکا نے 14نومبر2017کو بشری بی بی کو طلاق دی۔اور ٹھیک48دن بعد یعنی یکم جنوری 2018کوعمران خان بشری بی بی نے نکاح کیا جسکی خبر سب سے پہلے پانامہ اسکینڈل منظر عام پر لانے والے معروف صحافی عمر چیمہ نے کی تھی۔اس وقت عمران خان سمیت پی ٹی آئی بطور جماعت نے باضابطہ طور اس نکاح کی خبر کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دیا۔ 9جنوری کو عمران خان نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے 6 ٹویٹ کئے جن میں نکاح کی خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے جیو ٹی وی کے میر شکیل الرحمان اور عمر چیمہ پر سخت نکتہ چینی کی۔ پی ٹی آئی آفیشل کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ عمر چیمہ کی خبر میں کوئی صداقت نہیں، ابھی تو عمران خان نے بشری بی بی کی طلاق کے بعد نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔اسی طرح عمران خان نے متعدد ٹی وی انٹرویوز میں نکاح کی خبر کو من گھڑت جبکہ عمر چیمہ اور جیو کی صحافت کو گٹر سے تشبیح دی۔پھر 18فروری 2018 رات کے پونے بارہ بجے پی ٹی آئی آفیشل ٹویٹر پر عمران خان، بشری بی بی ،فرح گوگی، عون چوہدری، مفتی سعید، زلفی بخاری سمیت دیگر افراد کے گروپ فوٹو کیساتھ عبارت نمودار ہوتی ہے کہ "نکاح آج 18 فروری بروز اتوار رات تقریباً نو بجے قریبی خاندان اور دوستوں کی موجودگی میں ہوا ۔ عمران خان کو مبارکباد"۔ اسی طرح بشری بی بی کی دست راست فرح گوگی نے 20فروری کو جیو کے رپورٹر عثمان بھٹی کیساتھ انٹرویو (یہ اصرار کرتے ہوئے کہ نکاح 18 فروری کو ہوا) بولا تھا چونکہ عدت 14 فروری کو پوری ہوئی ہے اس سے پہلے یعنی یکم جنوری 2018 کو نکاح کیسے ہو سکتا تھا ؟۔ یہ تمام ویڈیوز، انٹرویوز، تصاویر اور ٹویٹر پر جاری بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔یاد رہے عمران خان بشری بی بی دوران عدت مقدمہ کے گواہان میں دو مرتبہ نکاح پڑھانے والے مفتی سعید، عمران خان کے پرسنل سیکرٹری عون چوہدری اور دونوں نکاح میں بطورگواہ شامل تھے جنہوں نے یکم جنوری اور 18فروری دو مرتبہ نکاح منعقد کروانے کی حلفا گواہی تھی۔حد تو یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی یکم جنوری نکاح کی تردید کرتی رہی اور 18فروری نکاح پر مبارکبادیں وصول کرتے رہے مگر عمران خان نے عدالت میں 342کے بیان میں یکم جنوری کے نکاح کی تصدیق جبکہ 18فروری کے نکاح کی تردید کی۔ میں یہ بات بڑے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر 50 صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلہ پر تبصرے کرنے والے 99فیصد سے زائد افراد نے عدالتی فیصلے کے ایک صفحے کو بھی نہ پڑھا ہوگا اور نہ ہی دیکھا ہوگا۔ عدالتی فیصلے میں طلاق و عدت کے معاملہ پر قرآنی آیات،قانون شہادت، تعزیرات پاکستان، محمڈن لاء مجموعہ ضابطہ فوجداری ، مسلم پرسنل لاء کے علاوہ عدالتی نظائرکے حوالہ جات شامل ہیں۔ بطور قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدالتی فیصلہ پڑھنے کے قابل ہے کیونکہ اس میں سوشل میڈیا پر پھیلے ہوئے بحث ومباحثہ، سوالات ، شرعی و قانونی مسائل کا احاطہ کیا گیاہے۔ لیکن مجھے پوری اُمید ہے کہ شخصیت پرستی کے شکار افراد کبھی بھی عدالتی فیصلہ کا مطالعہ نہیں کریں گےبلکہ مخالفت برائے مخالفت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی مچائے رکھیں گے۔بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ عمران خان کواس صورتحال میں پہنچانے میں عمران خان کے اپنے قول و فعل ہی کافی ہیں۔
واپس کریں