محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان کے بانیان کی جانب سے منظور شدہ قرارداد مقاصد جو نہ صرف آئین پاکستان کی اساس ہے بلکہ آئین پاکستان، 1973 کا دائمی حصہ ہے۔ اس میں درج ہے کہ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والی یہ دستور ساز اسمبلی خودمختار آزاد ریاست پاکستان کے لیے ایک آئین بنانے کا عزم کرتی ہے: جس میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔آئین پاکستان میں متعدد مقامات پر ریاست پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کے آئینی حقوق اور انکے تحفظ بارے عبارات موجود ہیں۔جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 20کے مطابق قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع پاکستان کے ہر شہری کو اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔اسی طرح آرٹیکل 25(1)کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے یکساں تحفظ کے حقدار ہیں۔ اور آرٹیکل 36کے تحت ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات بشمول وفاقی اور صوبائی خدمات میں ان کی مناسب نمائندگی کا تحفظ کرے گی۔ یہی نہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 51(4)کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلم افراد کے لئے 10مخصوص نشستیں ، آرٹیکل 59(1)کے مطابق سینٹ میں تمام صوبوں سے غیر مسلم افراد کے لئے 4مخصوص نشستیں اسی طرح آرٹیکل 106(1)کے مطابق پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم افراد کے لئے 24مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ان مخصوص نشستوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غیر مسلم افراد، مسلم برادری کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیںاور اپنے آئینی و قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔ مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کا انتخاب جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں کی اسمبلی میں موجود عددی اکثریت کی بناء پر کیا جاتا ہے۔
غیر مسلم افراد کا انتخابی فہرست میں اندراج:
الیکشن ایکٹ، 2017کی دفعہ 48کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی فہرستوں میں غیر مسلموں، معذور افراد اور خواجہ سرا شہریوں کے بطور ووٹر رجسٹریشن کے لیے خصوصی اقدامات بشمول غیر مسلم کے قومی شناختی کارڈ کے اجراء کو تیز کرنے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے ساتھ مربوط رابط قائم کرنا۔
ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ:
الیکشن ایکٹ کے 48-Aکےذریعہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہرہ دینے کے اغراض سے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ قادیانی ، احمدی یا لاہوری گروپ کے افراد سمیت ہر وہ شخص جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ختم نبوت میں کسی جھوٹے شخص کو شریک بناتا ہو، کسی صورت اپنے آپکو بطور مسلمان انتخابی فہرست میں ووٹ کا اندراج نہ کرسکے۔ کیونکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260(3)(a)کے مطابق مسلمان کی تعریف ان الفاظ میںکی گئی ہے کہ "مسلمان" سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے، اور ایسے کسی فرد پر ایمان نہیں لاتا اور نہ ہی اسے تسلیم کرتا ہے جس نےحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی لفظ یا کسی بھی وضاحت کے لحاظ سے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور آرٹیکل 260(3)(b)کے مطابق غیر مسلم" سے مراد وہ شخص ہے جو مسلمان نہیں ہے اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد،اور قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا فرد شامل ہے (جو خود کواحمدی کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے پکارے جاتے ہیں)، یا بہائی۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 48-A-2کے تحت اگر کسی شخص نے اپنے آپ کو بطور مسلمان ووٹر کے طور پر اندراج کرایا ہے اور اس ایکٹ کے تحت نظرثانی کرنے والی اتھارٹی کے سامنے اعتراض دائر کیا گیا ہے کہ یہ فرد مسلمان ووٹرنہیں ہے، تو نظرثانی کرنے والی اتھارٹی ایسے شخص کو نوٹس جاری کرے گی کہ وہ پندرہ دنوں کے اندر اس کے سامنے حاضر ہو اور اس سے مطالبہ کرے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کےمتعلق اپنے عقیدہ کے بارے میں پیش کردہ اعلامیہ " میں، (ووٹر کا نام)، حلف کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور یہ کہ میں کسی ایسے شخص کا پیروکار نہیں ہوں جو اس کا دعویٰ کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی لفظ یا کسی بھی مفہوم میں نبی ہو، اور یہ کہ میں ایسے دعویدار کو نبی یا مذہبی مصلح تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی میرا تعلق قادیانی گروہ سے ہے۔ لاہوری گروپ یا اپنے آپ کو احمدی کہتا ہوں۔"پر دستخط کرے۔ اگر وہ مذکورہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کرتا ہے، تو اسے غیر مسلم تصور کیا جائے گا اور اس کا نام مشترکہ انتخابی فہرستوں سے حذف کر دیا جائے گا اور اسی انتخابی علاقے کے ووٹرز کی ضمنی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جو غیر مسلم ہے۔ نوٹس دینے کے باوجود ووٹر نہ آنے کی صورت میں اس کے خلاف یک طرفہ حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔
مخصوص نشستوں پر انتخابات کا طریقہ کار:
الیکشن ایکٹ کے باب نمبر 6میں غیر مسلم افراد کے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میںمخصوص نشستوں کے انتخاب کی بابت مفصل طریقہ کار مذکور ہے۔ جسکے مطابق کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کو اسمبلی میں جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں الاٹ ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر ایک جماعت اسمبلی کی تمام جنرل سیٹیں جیت لے تو تمام مخصوص نشستیں بھی اسی پارٹی کے پاس چلی جائیں گی۔ بصورت دیگر مخصوص نشستیں اسمبلی میں سیاسی جماعت کی عددی برتری کی بنیاد پر تقسیم ہونگی۔یاد رہے آئین پاکستان میں غیر مسلم افراد کو جنرل نشستوں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی کوئی قدغن نہیں ہے۔
واپس کریں