دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اکتوبر 27۔غم کا کوئی منظر ہمیں ڈرا نہیں سکتا۔تحریر: زاہد صفی
مہمان کالم
مہمان کالم
دنیا کا امن اور سکون دو سامراجی قوتوں نے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک وہ جسے دنیا صیہونی سامراج کے نام سے جانتی ہے۔جس نے مشرق وسطیٰ کو ایک صدی سے کھلے عام دوزخ اور باقی دنیا کو درپردہ جہنم بنا کے رکھا ہے۔ دوسرا وہ سامراج کہ جس نے اخلاقیات اور تقسیم برصغیر کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر رات کی اندھیری میں دنیا کے حسین ترین خطے پر اپنے منحوس پنجے گاڑ دیئے۔ دنیا اُسے ہندوسامراج کے نام سے جانتی ہے۔ کشمیریوں کے لیے اکتوبر 27 1947ء کو برطانوی سامراج کی کوکھ سے اس سامراج نے کیا جنم لینا تھا کہ صدیوں سے مصائب و آلام کی شکار ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور اُمید کا سورج ڈوب گیا۔
بھارت شروع سے ہی اپنے غیر قانونی قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ایک طرف سے سفارتی چالاکیاں اور سیاسی سازشیں کرتا رہا تو دوسری طرف عسکری منصوبہ بندی سے ذرا برابر بھی غافل نہیں رہا۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ صیہونی سامراج کے ساتھ قربت پیدا کردی۔ یہ قربت اب باقائدہ طور ایک اتحاد کی صورت اختیار کرچکی ہے۔کشمیر میں اس اتحاد ایک جھلک اُس وقت نظر آئی تھی جب مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کی حسین ترین وادی، وادیِ لولاب میں مجاہدین کے خلاف آپریشن میں بھارتی فوجیوں کے ساتھ ساتھ صیہونی فوجیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کرحزب المجاہدین کے کمانڈر طاہر اعجاز جنہیں شیر لولاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے, نے ان صیہونی فوجیوں کو خاص طور پر مزہ چکھانے کے لیے ایک خصوصی آپریشن کا منصوبہ بنایا،اپنے ساتھ دو اور جری اور بہادر مجاہدین (صابر صدیقی اور ہلال احمد) کو لیکر ان اسرائیلی فوجیوں کی گھات میں رہے، ان میں صابر صدیقی بقید حیات ہیں اور ہلال احمد آپریشن کے کئی سال بعد ایک اور معرکے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ جب سوگام لولاب کے قریب (وانگن پَل) نامی جگہ پر ان صیہونی فوجیوں پر حزب کمانڈر طاہر اعجاز اپنے ساتھیوں سمیت اچانک حملہ آ ور ہوئے تو صیہونی فوجیوں کی ہوش ٹھکانے آ گئے۔ سات سے زائد اسرائیلی موقعہ پہ ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے وہ دن اور آ ج کا دن صیہونی فوجیوں نے کبھی کشمیر کا رخ نہیں کیا۔
قوموں پر عجب وقت آ جاتے ہیں، مصائب اُن کا پیچھا کرتے ہیں،خوشیاں روٹھ جاتی ہیں۔ جاڑے کا موسم اپنی قہرمانیوں کے ساتھ دستک دیتا ہے، ہرے بھرے کھیت و کھلیان دنوں میں ختم ہوجاتے ہیں،پتے جھڑ جاتے ہیں، رونقیں مانند پڑجاتی ہیں، درخت بے لباس اور اداس ہوجاتے ہیں، پرندوں کی چہچہاہٹ اچانک ختم ہوجاتی ہے، ندیوں کی روانی باقی نہیں رہتی، ہر چیز کے فنا کے گھاٹ اُترجاتی ہے۔
مگر یہ سارا غم کامنظر عارضی ہوتا ہے،مصائب و آلام کو دوا م نہیں ہوتا،جبینیں خاک پر رکھنے والے،شان ماضی اپنے سروں پہ سجا کر نکلنے والے جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری پرواز جاری ہے سمندر یا پہاڑ آئے، جب قوم صورت خورشید جینے کا عزم راسخ کرتی ہے تو پھر ابتلاؤں اور آزمائشوں کے دور کا خاتمہ یقینی ہوتا ہے، پھر وقت منجمد ہونے کے بجائے تیزی سے گزرجاتا ہے، چاروں اور شادابی اور ہریالی ہوتی،پھولوں کی مہک اور پرندوں کی چہک ہوتی ہے۔فلسطین کے اندر حماس کے مجاہدین نے صیہونی سامراج کے ساتھ ساتھ اُن کے تمام حواریوں کو یہ سمجھایا کہ غم کا کوئی منظر ہمیں ڈرا نہیں سکتا، ہمیں دنیا مٹا سکتی ہے لیکن جھکانہیں سکتی۔یہی پیغام ہر اک جابر اور ظالم سامراج کے لیے ہے چاہے و ہ ہندو سامراج ہویا کوئی اور۔
واپس کریں